یہ مسجد ویسے تو اہل تشیع کی ملکیت ہے لیکن خطیب سید مظہر علی عباس اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سنی مسلک کے پیروکاروں کو بھی یہ مسجد استمال کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا اہل تشیع کو۔

پاکستان میں ایک جانب جہاں خیبرپختونخوا کے ضلع کرم جیسے علاقے میں فرقہ ورانہ لڑائی اور پرتشدد فسادات گذشتہ برس سے خبروں کی زینت بنے رہے وہیں صوبے کے ضلع مانسہرہ میں ایک ایسا گاؤں بھی ہے جہاں اہل تشیع اور سنی برادری نماز کی ادائیگی کے لیے نہ صرف ایک ہی مسجد استعمال کرتی ہے بلکہ دونوں فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان ازدواجی بندھن باندھے جانے کی روایت بھی عام ہے۔
اس مسجد کا فولادی مینار اور چھت پر نصب لاؤڈ سپیکر پیراں گاؤں میں آنے والوں کو سب سے پہلے نظر آتے ہیں۔ یہ پیراں گاؤں کی واحد مسجد نہیں ہے لیکن بڑی ہونے کے ساتھ ساتھ دو فرقوں کی مشترکہ مسجد ہونے کا اعزاز صرف اسے ہی حاصل ہے۔
اذان کے بعد ایک فرقہ فوراً مسجد میں آتا ہے اور پندرہ منٹ بعد مسجد خالی کر دیتا ہے تاکہ دوسرے گروہ کو اپنے طریقے کے مطابق نماز ادا کرنے کا موقع مل سکے۔
مسجد کے خطیب سید مظہر علی عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ روایت ایک صدی پہلے شروع ہوئی تھی اور اگرچہ مسجد کو وقت کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا گیا لیکن کسی نے اس روایت کو تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی۔
اس مسجد کا فولادی مینار اور چھت پر نصب لاؤڈ سپیکر پیراں گاؤں میں آنے والوں کو سب سے پہلے نظر آتے ہیں۔اذان کی تقسیم
نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دونوں فرقے مسجد کے اخراجات بھی مل کر ادا کرتے ہیں جیسا کہ بجلی کا بل۔ یہ مسجد ویسے تو اہل تشیع کی ملکیت ہے لیکن خطیب سید مظہر علی عباس اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سنی مسلک کے پیروکاروں کو بھی یہ مسجد استعمال کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا اہل تشیع کو۔
دونوں فرقے سے تعلق رکھنے والے اپنے اپنے طریقوں کے مطابق نماز پڑھتے ہیں اور اذان دیتے ہیں۔
خطیب نے بتایا کہ ’ایک غیر تحریری معاہدے کے تحت اذان اس طرح تقسیم کی گئی ہے کہ فجر، ظہر اور مغرب کی ذمہ داری اہل تشیع کی جبکہ عصر اور عشا کی اذان سنی برادری دیتی ہے۔‘تاہم مظہر علی عباس کہتے ہیں کہ دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے بلاجھجک دوسرے فرقے کے ساتھ بھی نماز ادا کر لیتے ہیں۔
البتہ رمضان میں چونکہ اہل سنت شیعہ برادری سے چند منٹ پہلے روزہ افطار کرتے ہیں، اس لیے وہ اس مقدس مہینے میں الگ اذان دیتے ہیں۔
نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دونوں فرقے مسجد کے اخراجات بھی مل کر ادا کرتے ہیںشادیوں کا رواج
اس گاؤں کی پانچ ہزار آبادی ہے جو سنی اور شیعہ برادریوں میں تقریباً برابر تقسیم ہے۔ یہاں ایک ہی قبرستان ہے۔ اس رواداری کی ایک اور جھلک رشتوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس گاؤں کے مقامی شخص محمد صدیق نے بتایا کہ ان کے سسرال والے شادی کے لیے مشکل سے مانے تھے۔
اگرچہ ان کی اہلیہ کا تعلق دوسرے فرقے سے تھا، صدیق کے مطابق مسئلہ فرقے کا نہیں بلکہ یہ تھا کہ وہ محبت کی شادی کرنا چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس معاشرے میں ایسا کرنا تقریباً ہر کسی کے لیے مشکل امتحان ہوتا ہے۔ ان کی شادی کو تقریباً 18 سال ہو چکے ہیں۔
ان رشتوں کی وجہ سے ایک اور روایت بھی عام ہے۔
امجد حسین شاہ کہتے ہیں کہ بعض گھروں میں بچے دوسرے فرقے کی تقلید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ عقیدہ ایک ذاتی معاملہ ہے۔
پیراں میں یہ تصور مذہبی تہواروں پر بھی نظر آتا ہے جہاں سنی فرقے کے خطیب سید سجاد حسین کاظمی کہتے ہیں کہ جشن میلاد النبی ہو یا محرم کی مجالس، دونوں فرقے مل کر شرکت کرتے ہیں۔ عید الاضحی کے دوران مشترکہ قربانی کرنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے۔
فرقہ ورانہ تقسیم سے ماورا سیاست
خطیب مظہر علی کہتے ہیں کہ ’ہم نے کبھی کسی کی حمایت یا مخالفت مذہب کی بنیاد پر نہیں کی۔ ہم ہمیشہ اس شخص کو منتخب کرتے ہیں جو ہمارے خیال میں بہترین خدمت کر سکتا ہے‘جس دن بی بی سی نے پیراں گاؤں کا دورہ کیا، مقامی شہری زکوة کمیٹی کے چیئرمین کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کر رہی تھے جس میں کئی سال بعد اہل تشیع فرقے سے تعلق رکھنے والا ایک امیدوار منتخب ہوا۔
تاہم امیدواروں کی حمایت یا مخالفت کا پیمانہ بھی مسلک یا فرقہ نہیں۔
خطیب مظہر علی کہتے ہیں کہ ’ہم نے کبھی کسی کی حمایت یا مخالفت مذہب کی بنیاد پر نہیں کی۔ ہم ہمیشہ اس شخص کو منتخب کرتے ہیں جو ہمارے خیال میں بہترین خدمت کر سکتا ہے۔‘
لیکن حالات ہمیشہ ایسے نہیں رہے ہیں۔
سید منیر حسین شاہ کے مطابق بیس سال قبل مقامی تحصیل کونسل کے بلدیاتی انتخابات کے دوران ایک امیدوار نے ایک کالعدم تنظیم کے مقرر کو بلایا جنھوں نے فرقہ ورانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔
تاہم سید منیر حسین کے مطابق وہ یہ الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے کیوں کہ مقامی لوگوں نے فرقہ ورانہ تقسیم کو رد کیا۔
ان کے خیال میں اس یکجہتی کی بڑی وجہ مشترکہ مسجد ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر لوگوں نے کہا کہ وہ ایک نمائندے کو منتخب کر رہے ہیں جو ان کے مسائل کو اجاگر کرے، چاہے وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔
یہ مسجد مشترکہ کیسے بنی؟
اہل تشیع برادری نے اس تعمیر کا خرچ اٹھایا اور اسی لیے مسجد رسمی طور پر ان کی ملکیت ہے لیکن عملی طور پر اس سے دونوں کو ہی کچھ فرق نہیں پڑتا۔تقریباً 100 سال پہلے، پیراں کی زیادہ تر آبادی سادات یا سید خاندان پر مشتمل تھی جو 17ویں صدی میں اس گاؤں کی بنیاد رکھنے والوں کے خاندان میں سے تھے اور تصوف کے پیروکار تھے۔
مقامی محقق اور مورخ ڈاکٹر سبطین شاہ کے مطابق اس خاندان کے لوگ اہل تشیع ہوئے جبکہ کچھ آبادی سنی رہی اور دونوں گروہ مسجد کو استعمال کرتے رہے۔
ان کے مطابق 1980 کی دہائی کے اواخر میں، ایک مقامی بزرگ نے مسجد کی دوبارہ تعمیر کی تجویز دی، اور ایک سنی عالم مولوی گلاب شاہ ،جو اس وقت مسجد کے امور کے منتظم تھے، نے اس شرط پر رضامندی ظاہر کی کہ یہ دونوں فرقوں کے لیے مشترکہ رہے گی۔
اہل تشیع برادری نے اس تعمیر کا خرچ اٹھایا اور اسی لیے مسجد رسمی طور پر ان کی ملکیت ہے لیکن عملی طور پر اس سے دونوں کو ہی کچھ فرق نہیں پڑتا۔