پاکستان کی وزارتِ توانائی نے وزیرِاعظم شہباز شریف کی ہدایات کی روشنی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) سے منظور شدہ سولر پالیسی پر دوبارہ غور شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جارہی ہے تاکہ نیٹ میٹرنگ کے قواعد و ضوابط کو حتمی شکل دی جا سکے۔پاور ڈیویژن کے حکام کے مطابق، نیٹ میٹرنگ کے حوالے سے مشاورت مکمل ہونے کے بعد، نظرِثانی شدہ پالیسی کو ای سی سی اور وفاقی کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اس میں سولر صارفین سے بجلی کی خریداری کی قیمت میں منظور شدہ پالیسی کی نسبت کچھ اضافے کا بھی امکان ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے سولر پینلز کے کاروبار سے وابستہ گروپس کے دباؤ کے باعث فوری طور پر نئی پالیسی نافذ نہیں کی۔ اب سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد نیٹ میٹرنگ کی قیمت میں ممکنہ طور پر رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔اقتصادی رابطہ کمیٹی سے منظور شدہ پالیسی میں کیا تھا؟اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 13 مارچ کو نیٹ میٹرنگ کے ضوابط میں اہم ترامیم کی منظوری دی تھی، جن کے مطابق سولر صارفین سے بجلی کی خریداری کا نرخ 27 روپے فی یونٹ سے کم کرکے 10 روپے فی یونٹ مقرر کیا گیا تھا۔
مزید برآں نیٹ میٹرنگ کے صارفین کے لیے درآمد اور برآمد شدہ یونٹس کی علیحدہ بلنگ کی منظوری دی گئی تھی، فیصلے میں بتایا گیا تھا کہ یہ ترامیم صرف نئے سولر پینل نصب کرنے والے صارفین پر لاگو ہوگی، جبکہ موجودہ صارفین کو اس فیصلے سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔
وفاقی حکومت کے مطابق زیادہ تر سولر صارفین کا تعلق ملک کے بڑے اور خوشحال شہروں سے ہے، اور انہیں موجودہ نرخوں پر بجلی فروخت کرنے کی وجہ سے عام صارفین کے لیے سستی بجلی کی دستیابی پر منفی اثر پڑ رہا تھا۔کابینہ نے ای سی سی کے فیصلے کی توثیق کیوں نہیں کی؟ای سی سی سے منظوری کے بعد، سولر پینلز کے کاروبار سے وابستہ حلقوں اور عوامی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا، جس میں حکومت کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔اسی دوران، وزیرِاعظم شہباز شریف نے بیان دیا کہ سولر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی، جس کے بعد 26 مارچ کو وفاقی کابینہ نے ای سی سی کی منظور شدہ پالیسی کی توثیق کرنے کے بجائے اسے مزید غور و خوص کے لیے پاور ڈویژن کو واپس بھیج دیا۔ماہرین کیا کہتے ہیں؟توانائی امور کے ماہر علی خضر کا کہنا ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے منظور شدہ پالیسی میرٹ پر مبنی تھی، لیکن سولر کاروبار سے وابستہ حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے حکومت نے اسے دوبارہ زیرِ غور لانے کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹر فیاض چوہدری کا کہنا ہے کہ حکومت کو اقتصادی رابطہ کمیٹی سے منظور شدہ پالیسی کا دفاع کرنا چاہیے تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
علی خضر کے مطابق، پاکستان میں سولر پینل کا استعمال زیادہ تر صاحبِ ثروت طبقے نے بطور سرمایہ کاری اپنایا ہے، جس کے باعث نیٹ میٹرنگ کے نرخ کم کرنے کا مقصد عام صارفین کے لیے بجلی کو مزید سستا بنانا تھا۔
کیا حکومت نیٹ میٹرنگ کی قیمت میں اضافہ کرے گی؟علی خضر کا کہنا ہے کہ چونکہ حکومت نے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا عمل شروع کر دیا ہے، اس لیے امکان ہے کہ کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے گا، جس کے تحت نیٹ میٹرنگ کی قیمت ای سی سی سے منظور شدہ 10 روپے فی یونٹ سے کچھ زیادہ مقرر کی جا سکتی ہے۔توانائی امور کے ماہر اور لمز انرجی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر فیاض چوہدری، کا کہنا ہے کہ حکومت کو اقتصادی رابطہ کمیٹی سے منظور شدہ پالیسی کا دفاع کرنا چاہیے تھا۔تاہم اب چونکہ اس پالیسی پر دوبارہ غور کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں دوبارہ مشاورت کا عمل جاری ہے، اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ نیٹ میٹرنگ کی قیمت میں اضافہ ہوگا یا نہیں۔