صوبہ سندھ کے صحرائی ضلع تھرپارکر میں سورج آسمان کے بیچوں بیچ چمک رہا ہے۔ ریت اتنی گرم ہو چکی ہے کہ ننگے پاؤں چلنا محال ہے۔ مگر ایک مور، گاؤں کے پرانے مٹکے کے کنارے بیٹھا ہے، جیسے یقین ہو کہ پانی ضرور آئے گا، چاہے دیر سے ہی کیوں نہ آئے۔یہ منظر تھر کی روزمرہ زندگی کا عکاس ہے۔ یہاں انسان اور مور دونوں ایک جیسے موسم، ایک جیسی پیاس اور ایک جیسے مسائل کے ساتھ جینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق تھر میں صرف رواں برس 12 فروری سے اب تک 65 مور ہلاک ہو چکے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں اسلام کوٹ، مٹھی اور ڈپلو کے گرد و نواح کے گاؤں شامل ہیں۔
ڈپٹی کنزرویٹر وائلڈ لائف میر اعجاز علی تالپور نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ مور وہ ہیں جو مقامی افراد گھروں میں پالتے ہیں، اور زیادہ تر مرغیوں کے ساتھ رکھے جاتے ہیں۔ ان کا مدافعتی نظام فطری ماحول میں رہنے والے جنگلی موروں کے مقابلے میں کمزور ہوتا ہے، اسی لیے وہ گرمی یا معمولی بیماری سے بھی جانبر نہیں ہو پاتے۔‘ان کے مطابق ’اس وقت موروں میں بخار اور نزلے جیسی بیماریاں سامنے آئی ہیں، جو شدید گرمی اور صفائی کی کمی کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔‘’پہلے انہیں پانی دیتے ہیں، پھر خود پیتے ہیں‘مٹھی کے قریب ایک گاؤں کی رہائشی چندری مہیشوری کہتی ہیں کہ ’ہم نے موروں کو بچوں کی طرح پالا ہے۔ جب گھر میں پانی آتا ہے، پہلے ان کے برتن بھرتے ہیں، پھر اپنے۔ وہ ہمارے ساتھ ہی پیدا ہوتے ہیں، ہمارے ساتھ ہی مرتے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ میری بیٹی نے چند ماہ قبل ایک زخمی مور کو گھر میں باندھ رکھا، روز نیم کی پتیاں اور ٹھنڈا پانی دیتی رہی۔ مور بچا تو نہیں، لیکن ہم نے پوری کوشش کی۔’قدرت کا وارننگ سسٹم‘مقامی سماجی کارکن روشن بھیل کا ماننا ہے کہ ’تھر کے مور صرف پرندے نہیں، بلکہ قدرت کا وارننگ سسٹم ہیں۔ جب یہ بیمار یا مردہ ملتے ہیں، تو ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ حالات خراب ہو رہے ہیں۔ بارش کم ہوئی ہے، پانی کم ہے یا کوئی وبا آنے والی ہے۔‘
محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق تھر میں صرف رواں برس 12 فروری سے اب تک 65 مور ہلاک ہو چکے ہیں۔ (فائل فوٹو: محکمہ وائلڈ لائف سندھ)
پیاس دونوں کی ہےتھر میں پانی کے لیے جدوجہد صرف انسانوں کی نہیں بلکہ مور بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ جب انسان روزانہ میلوں دور پانی لینے جاتے ہیں، تب گاؤں میں مور کنوؤں، جوہڑوں اور ٹینکیوں کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔
بعض علاقوں میں مقامی افراد نے موروں کے لیے الگ برتن رکھے ہیں۔ کچھ نے ان کے لیے سایہ دار جھونپڑیاں بھی بنائی ہیں تاکہ وہ دھوپ سے بچ سکیں۔محکمہ وائلڈ لائف کے افسر میر اعجاز تالپور کا کہنا ہے دستیاب وسائل میں ہماری ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ ہم پولٹری ایکسپرٹس کے ساتھ رابطے میں ہیں مختلف علاقوں کا دورہ بھی کررہے ہیں تاکہ ویکسین یا ابتدائی علاج فراہم کیا جا سکے۔لیکن مقامی افراد کا مؤقف ہے کہ ’یہ سب صرف بیانات کی حد تک محدود ہے۔ نہ کوئی باقاعدہ مانیٹرنگ ہے نہ مستقل ویکسینیشن۔ بس جب خبر چلتی ہے، تب ایک ٹیم آتی ہے، فوٹو کھنچواتی ہے اور واپس چلی جاتی ہے۔‘ثقافتی سانحہتھر کے مور یہاں کی لوک کہانیوں، گیتوں، بچوں کی لوریوں اور بزرگوں کی دعاؤں کا حصہ رہے ہیں۔ ان کی موجودگی تھر کی روح ہے۔ مگر اب ان کا مرنا صرف ایک حیاتیاتی یا ماحولیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک ثقافتی سانحہ بھی بن چکا ہے۔جب پیاسے مور مٹی چاٹتے ہیں، اور انسان کنوؤں میں جھانکتے ہیں، تب سمجھ آتا ہے کہ قدرت اور انسان کی بقا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف کے افسر میر اعجاز تالپور کا کہنا ہے دستیاب وسائل میں ہماری ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ (فوٹو: محکمہ وائلڈ لائف سندھ)
تھر میں مور مرنا کوئی نیا واقعہ نہیں۔ پچھلے ایک عشرے میں کبھی رانی کھیت کی وبا تو کبھی خشک سالی اور پانی کی کمی نے انہیں نشانہ بنایا۔ مگر ان کا ہر بار یوں مرنا ایک سوال چھوڑ جاتا ہے کہ جب قدرت کے سب سے خوبصورت پرندے پیاس سے مرنے لگیں، تو انسان کی باری کتنی دور ہے؟
اس لیے ضروری ہے کہ سندھ کا قومی پرندہ قرار دیے گئے مور کی حفاظت کی جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے یہ مور بہتر ماحول میں صحت مند زندگی گزار سکیں۔