پہلگام حملہ: دہشت گردی کہیں بھی ہو پاکستان اس کی پرزور مذمت کرتا ہے، خواجہ آصف

image
پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف کا انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں منگل کو ہونے والے حملے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ  دہشت گردی دنیا میں کہیں بھی ہو پاکستان اس کی پرزور مذمت کرتا ہے اور یہ پمارا موقف ہے۔ 

’پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے، پاکستان کس طرح دہشت گردی کی پشت پناہی کر سکتا ہے؟ ہم تو آخری قوم ہوں گے جو دہشت گردِی کی پشت پناہی کرے گی۔‘

ہم نیوز کے پروگرام ’فیصلہ آپ کا‘ میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ انڈین میڈیا کی جانب سے پاکستان پر الزام لگانا نا مناسب ہے۔ ’انڈیا کے ہوم گراؤنڈ پر بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔‘

پہلگام حملے کے حوالے سے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ’ میں کوئی سپیکولیشن نہیں کرنا چاہتا لیکن فالس فلیگ والے ہتھکنڈوں کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔‘

’اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے اس قسم کی بات ہوسکتی ہے۔‘

خواجہ آصف نے کہا کہ ’یہ سوال پوچھنا چاہوں گا کہ سات لاکھ فوجیوں کی موجودگی میں یہ افسوس ناک واقعہ ہوا ہے تو انڈیا کو خود احتسابی نہیں کرنی چاہیے؟۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی حملہ ہوتا ہے ہم بھر پور جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں۔

’جب ہماری ہوائی حدود کی خلاف ورزی کی گئی تھی تو اس کا جواب ابھینندن کی صورت میں دیا گیا تھا، سب کو یاد ہے کہ اس وقت کیا ہوا تھا۔‘

وزیر دفاع نے کہا کہ  ایران  اور افغانستان  سرحد پر ایک ایسے شخص کو پکڑا گیا ہے جس طرح کلبھوشن والا سلسلہ ہوا تھا۔ ’آج بھی بلوچستان اور ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے تانے بانے  انڈیا کے ساتھ ملتے ہیں۔‘

خیال رہے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں منگل کو سیاحوں پر حملے میں 26 سے زائد افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

بدھ کو پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت اور دہشت گردوں کے حملے سے متعلق جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔‘

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.