پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے پوش علاقے ڈیفنس بی میں ڈکیتی کی ایک واردات نے پولیس کو اس وقت حیرت میں ڈال دیا جب تین سکیورٹی گارڈز نے چینی باشندوں کے گھر 1 کروڑ 80 لاکھ روپے کی چوری کی۔
واضح رہے کہ یہ چینی شہری کاروبار کی غرض سے لاہور میں مقیم ہیں۔ یہ واقعہ 30 جون کی دوپہر کو پیش آیا جس کی اطلاع پولیس تک رات کو پہنچی۔
پولیس حکام کے مطابق ’اس گھر میں دو سکیورٹی گارڈز تعینات تھے جبکہ مرکزی ملزم کو پہلے ہی مجرمانہ ریکارڈ کی وجہ سے ملازمت سے فارغ کیا جا چکا تھا۔‘
اے ایس پی ڈیفنس لاہور شہربانو نقوی نے پیر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ’گھر کے ملازم ہی چوری کی واردات کے ماسٹر مائنڈ تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’36 گھنٹے کے اندر چور لوٹی گئی رقم سمیت بہاولپور سے گرفتار کر لیے گئے۔ اِن میں مرکزی ملزم علی عزیز، شبیر اور امتیاز شامل ہیں۔‘
حکام کے مطابق ’ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کی طرف سے ایس پی کینٹ کو ملزموں کی گرفتاری کا خصوصی ٹاسک دیا گیا تھا۔‘
’اس کے بعد ایس پی کینٹ کی ہدایت پر اے ایس پی ڈیفنس شہربانو نقوی کی سربراہی میں ملزموں کو گرفتار کرنے کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی۔‘
ایس ایچ او تھانہ ڈیفنس بی، علی حسن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ملزموں نے دورانِ تفتیش واردات کا اعتراف کر لیا ہے جبکہ اُن سے 1 کروڑ 20 لاکھ روپے نقدی بھی برآمد کر لی گئی ہے۔‘
انہوں نے واردات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ملزموں کو سی سی ٹی وی کیمروں اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے گرفتار کیا گیا ہے۔‘
’تینوں ملزموں کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش کی جا رہی ہے۔ اِن میں سے دو اِس گھر میں ملازمت کر رہے تھے جبکہ مرکزی ملزم کو پہلے ہی فارغ کیا جا چکا تھا۔‘
پولیس حکام کے مطابق ’مرکزی ملزم علی عزیز پہلے اسی گھر پر سکیورٹی گارڈ کی حیثیت سے کام کرتا تھا تاہم چینی باشندوں نے اسے کریمینل ریکارڈ کی وجہ سے ملازمت سے نکال دیا تھا۔‘
ایس ایچ او علی حسن نے بتایا کہ ’علی عزیز نے اپنے دو ساتھیوں شبیر اور امتیاز کے ساتھ مل کر چوری کی اس واردات کی منصوبہ بندی کی۔‘
’انہوں نے گھر پر تعینات سکیورٹی گارڈ کو چپس کا پیکٹ اور جُوس دیا تو وہ خوش ہو گیا۔ اس دوران ملزموں نے تین گھنٹے تک گھر میں لُوٹ مار کی اور ایک کروڑ 80 لاکھ روپے لے کر فرار ہو گئے۔‘
ایس ایچ او کے مطابق ’چینی شہری لاہور میں انسانی بالوں کا کام کرتے ہیں جنہیں چین سے درآمد کر کے ویگیں (نقلی بال) تیار کی جاتی ہیں۔‘
پولیس حکام کا مزید کہنا ہے کہ ’مرکزی ملزم ڈکیتی کے بعد فرار ہو گیا تھا جبکہ دونوں گارڈز گھر میں موجود تھے جنہیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔‘
شہربانو نقوی نے مزید بتایا کہ ’مرکزی ملزم کا تعلق چشتیاں سے تھا اور اُس کی گرفتاری کے لیے اُسی رات اُس کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تاہم وہ گھر پر موجود نہیں تھا۔‘
’بعدازاں گھر والوں کے ذریعے اُسے کال کروائی گئی کہ انہوں نے جانور خریدنے ہیں لہٰذا آپ پیسے دے دیں۔ اس طرح وہ پیسے دینے کے بہانے بہاولپور کے بس سٹاپ پر آیا تو اُسے وہیں سے گرفتار کر لیا گیا۔‘
اس واقعے نے ایک بار پھر گھریلو ملازمین پر اعتماد کے سوال کو جنم دیا ہے۔ اسی حوالے سے ایس ایچ او ڈیفنس بی، علی حسن بتاتے ہیں کہ ’یہ ایک پیچیدہ کیس تھا لیکن ہماری ٹیم نے رات دن محنت کر کے ملزموں کو گرفتار کر لیا۔‘
ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ’ایک بار پھر یہ ظاہر ہوا ہے کہ گھریلو ملازمین کی بھرتی سے پہلے اُن کے پس منظر کی مکمل جانچ پڑتال ضروری ہے۔‘
شہر بانو نقوی کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور اس کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیاں بِلاامتیاز جاری رہیں گی۔‘