پاکستان اور انڈیا کے درمیان ’سندھ طاس معاہدہ‘ کیا ہے؟

image

جب کبھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کی بات ہوتی ہے تو سرحدوں، افواج اور سفارتی محاذوں پر تعلقات میں بگاڑ آنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان پانی کے معاملے پر بھی کشیدگی شروع ہو جاتی ہے۔

یہی صورت حال پہلگام میں عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد بھی پیدا ہو گئی جس کے تحت انڈیا نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

لیکن یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سندھ طاس معاہدہ  کب اور کیسے ہوا؟

معاہدے کا پس منظر

سنہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد جب پاکستان اور انڈیا دو الگ ریاستیں بنیں تو نہروں اور دریاؤں کا وہ نظام، جو متحدہ ہندوستان میں موجود تھا دو ممالک کے درمیان بٹ گیا۔

چونکہ پاکستان کے بیشتر دریائی نظام کا منبع انڈیا میں تھا، اس لیے 1948 میں انڈیا نے دریائے بیاس، ستلج اور راوی کا پانی بند کر کے خطرے کی گھنٹی بجا دی، جس کے بعد پاکستان کی زراعت، جو مکمل طور پر انہی دریاؤں پر انحصار کرتی تھی، خطرے میں پڑ گئی۔

سندھ طاس معاہدہ

اس سنگین صورت حال کے بعد عالمی بینک کی ثالثی کے ذریعے پاکستان اور انڈیا کے درمیان 19 ستمبر 1960 میں سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا (راوی، بیاس، ستلج) انڈیا کو دیے گئے، جبکہ تین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کے حصے میں آئے۔

معاہدے کے تحت پاکستان کو اپنے حصے کے دریاؤں پر مکمل حقوق دیے گئے، اور انڈیا کو صرف بجلی پیدا کرنے یا آب پاشی کے مخصوص منصوبوں کے اختیارات دیے گئے۔

سندھ طاس معاہدے کی پاکستان کے لیے اہمیت

آبی وسائل پر کام کا وسیع تجربہ رکھنے والے ماہر ڈاکٹر آصف جاوید کے مطابق سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے صرف ایک قانونی دستاویز نہیں بلکہ ایک ’لائف لائن‘ ہے۔ 

ان کے مطابق ’اس معاہدے کے تحت پاکستان نے تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیم تعمیر کیے ہیں اور اپنی زراعت کو نہری نظام سے جوڑا ہے۔‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعے پر عالمی بینک بطور ثالث ایک بار پھر مداخلت کر سکتا ہے (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

ڈاکٹر آصف جاوید نے اردو نیوز کو بتایا کہ گذشتہ برسوں میں انڈیا کی جانب سے مغربی دریاؤں پر ڈیمز اور آبی منصوبوں کی تعمیر نے پاکستان میں تشویش پیدا کی ہے۔

’کشن گنگا اور رتلے جیسے منصوبے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھے گئے، جن پر پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر اعتراضات بھی اٹھائے۔‘

عالمی بینک کا کردار

سندھ طاس معاہدہ کرانے میں عالمی بینک کا کردار نہایت اہم اور ثالثی پر مبنی تھا۔ عالمی بینک نے نہ صرف فریقین کے درمیان ثالثی کی بلکہ تکنیکی، مالی اور سیاسی سطح پر بھی مکمل تعاون فراہم کیا۔

سنہ 1947 کے بعد جب انڈیا نے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں پر ڈیمز اور نہروں کی تعمیر شروع کی تو دونوں ممالک کے درمیان پانی کا تنازع پیدا ہو گیا۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان براہِ راست مذاکرات ناکام ہونے کے بعد 1951 میں عالمی بینک نے تنازعے کے حل کے لیے ثالثی کی پیش کش کی۔

اسی تناظر میں عالمی بینک نے ہائیڈرولوجی، انجینیئرنگ اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین پر مشتمل ایک تکنیکی ٹیم مقرر کی، اس ٹیم نے پانی کی تقسیم کا فریم ورک تیار کیا اور یہ معاہدہ ممکن بنایا۔

معاہدے کا ضامن ہونے کی حیثیت سے اگر فریقین کے درمیان کوئی تنازع پیدا ہو تو عالمی بینک بطور ثالث ایک بار پھر مداخلت کر سکتا ہے۔

دونوں ممالک میں جنگوں کے دوران بھی ’سندھ طاس معاہدہ‘ ہمیشہ برقرار رہا ہے (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

ماضی کے اندر ہونے والی خلاف ورزیاں

یوں تو 1960 سے لے کر 22 اپریل 2025 تک پاکستان اور انڈیا کے درمیان سندھ طاس معاہدہ قائم رہا ہے، تاہم ماضی کے اندر دونوں ممالک ایک دوسرے پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات لگاتے رہے ہیں اور انڈیا کی جانب سے معاہدہ ختم کرنے کی دھکمیاں بھی دی جاتی رہی ہیں۔

سنہ 2016 میں اُڑی حملے کے بعد انڈیا کی دھمکی

ستمبر 2016 میں اُڑی حملے کے بعد انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔‘

نریندر مودی کے اس بیان کے بعد انڈیا نے دریائے جہلم پر تلبل پروجیکٹ دوبارہ شروع کیا جس پر پاکستان نے اعتراض کیا۔

سنہ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد کیے گئے اقدامات

پلوامہ حملے کے بعد بھی انڈیا نے اعلان کیا کہ وہ راوی، بیاس اور ستلج دریاؤں کا پانی مکمل طور پر انڈیا میں استعمال کرے گا اور پاکستان کو پانی کی فراہمی بند کر دے گا۔ اس اعلان پر پاکستان نے شدید ردِعمل ظاہر کیا تھا۔

معاہدے پر نظرثانی کا مطالبہ

اسی طرح جنوری 2023 میں انڈیا نے عالمی بینک کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ سندھ طاس معاہدے کی شرائط پر نظرثانی کی جائے۔

آبی ماہرین کے مطابق سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے ایک ’لائف لائن‘ کی حیثیت رکھتا ہے (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا) 

اس خط پر پاکستان نے اپنے ردِعمل میں کہا تھا کہ ’سندھ طاس معاہدہ بین الاقوامی طور پر ایک تسلیم شدہ معاہدہ ہے اور انڈیا کو اس کی خلاف ورزی کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔‘

’جنگوں کے دوران بھی معاہدہ برقرار رہا‘

سندھ طاس معاہدہ ان چند بین الاقوامی معاہدوں میں شمار ہوتا ہے جو شدید تنازعات اور جنگوں کے باوجود بھی قائم رہے۔ 

ڈاکٹر آصف جاوید کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1965 اور 1971 کی جنگوں میں حالات نہایت کشیدہ تھے، دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بھی منقطع ہو چکے تھے، تاہم اس کے باوجود انڈیا نے مغربی دریاؤں کے پانی کی روانی کو نہیں روکا۔ معاہدہ تکنیکی سطح پر بدستور فعال رہا اور فریقین نے پانی کی تقسیم سے متعلق تعاون برقرار رکھا۔

’اسی طرح 1999 کی کارگل جنگ، جو کہ محدود پیمانے پر لڑی گئی، اس دوران بھی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا کوئی واضح واقعہ ریکارڈ پر نہیں آیا۔‘

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.