برسوں پرانے قواعد، شہریوں کے سٹیٹ لائف انشورنس کلیمز کی راہ میں بڑی رکاوٹ 

image
جب نوید احمد نے سنہ 2004 میں سٹیٹ لائف انشورنس کی دو پالیسیاں خریدیں، تو وہ پاکستان میں مقیم ایک عام سے ملازم تھے جن کا خواب بیرونِ ملک ملازمت کا حصول تھا اور ساتھ ہی غیریقینی مستقبل سے نمٹنے کی فکر بھی لاحق تھی۔

ہر سال پچیس پچیس ہزار روپے کی یہ چھوٹی پالیسیاں ان کے لیے ایک تحفظ تھیں۔ ایک اطمینان کہ اگر کبھی کچھ ہو گیا تو یہ سرمایہ کام آئے گا۔ 

پھر وقت گزرتا گیا، وہ بیرونِ ملک چلے گئے، محنت کرتے رہے اور ان پالیسیوں کو سالہا سال تک نبھاتے رہے۔ آخر کار 2024 کے آخر یا 2025 کے اوائل میں وہ دن آ گیا جب یہ پالیسیاں میچور ہو گئیں۔

نوید نے سوچا کہ اب تو بس ایک رسمی کارروائی ہو گی، چند فارم بھریں گے، ایک دو دستخط کریں گے اور ان کے برسوں کی جمع پونجی انہیں مل جائے گی۔لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اصل پیچیدہ سفر تو اب شروع ہونے والا ہے۔

 نوید احمد نے بتایا کہ ’جب میں نے کلیم کے لیے رابطہ کیا تو مجھے کہا گیا کہ اصل پالیسی ڈاکیومنٹس بھیجیں۔ میں نے کہا بھائی 20 سال پرانی پالیسی ہے، اب کہاں سے لاؤں؟ وہ کوئی فائل یا لیمینیٹڈ کارڈ کی صورت میں تو تھی نہیں، عام پرنٹر سے نکلی ہوئی پرچی تھی۔‘

مگر جواب آیا ’اصل پالیسی اصل دکھانا ہو گی ورنہ کلیم ممکن نہیں۔‘

یہ صرف کاغذ کی بات نہیں تھی۔ ان سے کہا گیا کہ ایک حلف نامہ بنوائیں، سفارت خانے سے فارم اٹیسٹ کرائیں، پھر انہیں بذریعہ ڈاک پاکستان بھیجیں اور پھر انتظار کریں کہ کب وہاں کارروائی مکمل ہو۔

اس دوران نوید نے بتایا کہ ان کے پاکستان کے تمام بینک اکاؤنٹس غیرفعال ہو چکے ہیں اور اگر رقم وہاں بھیجی گئی تو وہ نکالنا مشکل ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ وہ کسی یورپی یا عرب ممالک کے بینک کا اکاؤنٹ نمبر دے سکتے ہیں مگر ادارے کا سخت اصول تھا؛ ’ہم بیرونِ ملک کسی بھی بینک میں رقم ٹرانسفر نہیں کرتے۔‘

نوید نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا ’یہ پیسے میرے بچوں کے لیے تھے، میرے علاج کے لیے تھے، گھر کے ضروری کاموں کے لیے تھے۔ اب یوں لگتا ہے جیسے یہ جمع پونجی سامنے ہوتے ہوئے بھی مجھے اسے دیکھنے کی اجازت نہیں۔‘ 

متاثرین کا کہنا ہے کہ سٹیٹ لائف جیسا ادارہ آج بھی 15 بیس سال پرانے کاغذوں اور دستخطوں پر قائم ہے (فوٹو: پکسابے)

انہوں نے کئی ماہ یہ ثابت کرنے میں لگا دیے کہ وہ وہی نوید ہیں جس نے وہ پالیسی لی تھی۔ ان کی دستاویزات پرانی ہو چکی ہیں لیکن اس میں ان کا قصور نہیں مگر سٹیٹ لائف کا جواب ہر بار ایک نیا فارم، ایک نئی شرط اور ایک نئی تاخیر کی صورت میں سامنے آتا۔

یہ دکھ بھری داستان صرف نوید تک محدود نہیں ہے۔

راولپنڈی کی رہائشی سمیرا بی بی کا دکھ شاید اس سے بھی زیادہ گہرا ہے۔ ان کے شوہر نے ان کے لیے ایک پالیسی لی تھی۔

وہ کہتے تھے ’اگر میں نہ رہا، تو یہ پیسہ تمہیں محفوظ رکھے گا۔‘ لیکن جب شوہر کا انتقال ہوا تو آسیہ بی بی نے پالیسی کی رقم لینے کی کوشش کی۔

ان سے وراثتی سرٹیفکیٹ، وفات کی رپورٹ، نادرا کی تصدیق اور پتہ نہیں کیا کیا مانگا گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے جیسے مجھے بار بار اپنے شوہر کی موت کا ثبوت دینا پڑ رہا ہے۔‘ ان کی آواز بھرا گئی، آنکھوں میں نمی آ گئی، اور وہ بس اتنا کہہ سکیں کہ ’جس چیز نے مجھے سہارا دینا تھا، وہی میرے لیے بوجھ بن گئی ہے۔‘

گوجر خان کے محمد زبیر نے اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے سٹیٹ لائف کی ایک بڑی پالیسی لی تھی، جب پالیسی میچور ہوئی تو پہلا سوال یہ تھا ’اصل پالیسی دکھائیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اصل کاغذات وقت کی دھول سے بوسیدہ ہو کر ختم ہو گئے تھے۔ ان کے اوپر سے سیاہی تک مٹ گئی تھی۔ اس لیے سنبھال نہیں سکے۔  

انہیں جواب آیا ’جب تک کاغذ نہیں دکھائیں گے، کلیم منظور نہیں ہو سکتا۔‘ 

سٹیٹ لائف کے ایک ترجمان نے کہا کہ ادارہ صارفین کی مشکلات سے آگاہ ہے اور بہتری کے لیے تجاویز پر غور کر رہا ہے (فائل فوٹو: پکسابے)

متاثرین کا کہنا ہے کہ جب لوگ پالیسی لیتے ہیں تو ان سے کوئی نہیں کہتا کہ کلیم کے وقت اصل کاغذ کے بغیر کچھ نہیں ہو گا اور ان پر ہر ممکن تصدیق اور تاخیر کی دیواریں کھڑی کی جائیں گی۔

یہ وہی پاکستان ہے جہاں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جیسے حساس دستاویزات آن لائن بن جاتے ہیں، زمینوں کی فرد کمپیوٹرائز ہو چکی ہے مگر سٹیٹ لائف جیسا ادارہ آج بھی 15 بیس سال پرانے کاغذوں اور دستی دستخطوں پر قائم ہے۔

سٹیٹ لائف انشورنس کے ایک ترجمان سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’ہم قانونی تقاضوں کے تحت کام کرتے ہیں، اصل دستاویزات اس لیے ضروری ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی جعل سازی روکی جا سکے۔ بیرونِ ملک مقیم صارفین کے لیے ایمبیسی کے ذریعے کلیم کی منظوری کا ایک واضح طریقہ کار موجود ہے۔‘

 انہوں نے مزید کہا کہ 'ادارہ صارفین کی مشکلات سے آگاہ ہے اور بہتری کے لیے تجاویز پر غور کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں جدت لانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔' 

ڈیجیٹل گورننس اور ای-آفس سسٹمز کے ماہر انصر حسن اس بارے میں کہتے ہیں ’سٹیٹ لائف جیسے قومی ادارے اگر نادرا یا پاسپورٹ آفس کی طرز پر مکمل ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر منتقل ہو جائیں تو کلیم کا عمل نہ صرف آسان ہو سکتا ہے بلکہ صارفین کا اعتماد بھی بحال ہو گا۔‘

’جس طرح شناختی کارڈ کے لیے بائیومیٹرک تصدیق، آن لائن ایپلیکیشن اور چند دنوں میں ڈیلیوری ممکن ہو گئی ہے، اسی طرح پالیسی کی تفصیلات، ادائیگی کی تصدیق، اور کلیم کا تمام عمل ایک ایپ یا پورٹل کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔‘

بہت سے صارفین کو پالیسی میچور ہونے کے بعد کلیم کرتے وقت مشکلات کا سامنا ہے (فائل فوٹو: فری پکس)

ان کا مزید کہنا تھا ’اگر پالیسی لینے کے وقت ہی صارف کی بائیومیٹرک تصدیق، نادرا ڈیٹا سے لنک اور بینک اکاؤنٹ کی معلومات ڈیجیٹل ریکارڈ میں محفوظ کر لی جائیں تو مستقبل میں اصل کاغذ کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ سب کچھ آن لائن ویریفائی ہو سکتا ہے۔‘

ای-آفس ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سٹیٹ لائف جیسے اداروں کو جدید ٹیکنالوجی اپنانی چاہیے تاکہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنے ہی پیسے وصول کرنے کے لیے کاغذی جنگ نہ لڑنا پڑے۔ دنیا بھر میں انشورنس ادارے اسی ماڈل پر کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔

اگر پاکستان کے شہری آن لائن ٹیکس بھر سکتے ہیں، شناختی کارڈ بنوا سکتے ہیں اور زمینوں کے ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں تو پھر اپنے حق کی انشورنس رقم وصول کرنے کے لیے دہائیوں پرانی پالیسی کا کاغذ سنبھال کر رکھنا کیوں ضروری ہے؟

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.