خیبر پختونخوا کے ’قدامت پرست‘ معاشرے میں شادی شدہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے، صوبائی حکومت نے ترمیم شدہ نکاح نامے کا ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے، جس میں حق مہر کے تعین اور ایک دوسرے سے منتقل ہونے والی بیماریوں سے متعلق لازمی ٹیسٹ کرانے کی شقیں شامل کی گئی ہیں۔پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر ترمیم شدہ نکاح نامے میں سب سے اہم شق حق مہر کی ہے، جس کی ذیلی شق میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ آیا حقِ مہر نقد، غیر منقولہ جائیداد، منقولہ جائیداد (مووایبل پراپرٹی) یا سونے کے زیورات کی صورت میں ہوگا؟ڈرافٹ میں ایک اور ترمیم کے مطابق، ہیپاٹائٹس سی، تھیلیسیمیا اور ایچ آئی وی کے ٹیسٹ کرانا لازمی ہوں گے اور یہ ٹیسٹ سرکاری لیبارٹری سے کرانے اور رجسٹرار کے دفتر میں جمع کرانے ہوں گے۔ترمیم شدہ ڈرافٹ میں جو نئی شقیں شامل کی گئی ہیں، ان میں نکاح کے بعد بیوی کا شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا (خواہش کے مطابق)، اور دلہا اور دلہن کی شہریت شامل ہیں۔نکاح نامے میں پہلے سے موجود ایک شق کے تحت یہ بتانا پڑتا تھا کہ دلہن غیر شادی شدہ، بیوہ یا طلاق یافتہ ہے۔ تاہم ترمیم شدہ ڈرافٹ میں اس شق کے ساتھ یہ اضافہ کیا گیا ہے کہ کیا طلاق عدالت میں مقدمے کے بعد ہوئی؟ صوبائی وزیر قانون کے مشیر رئیس خان کا کہنا ہے کہ ’ہائیکورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت دی تھی، جس کے بعد یہ معاملہ پہلے محکمۂ بلدیات اور بعد میں وزارت قانون کو بھیجوا دیا گیا۔ اور اب محکمۂ بلدیات ترمیم شدہ نکاح نامے کا مسودہ عدالت کو پیش کرے گا۔‘کیا وجہ ہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے خیبر پختونخوا کی حکومت کو نکاح نامے میں ترامیم کی ہدایت کی؟پشاور کے وکلا اور خواتین کے حقوق کے کارکنان کے مطابق خیبر پختونخوا کی عدالتوں میں سینکڑوں ایسے مقدمات زیرِسماعت ہیں، جن میں خواتین اپنے حقوق کے لیے قانونی جنگ اس لیے لڑ رہی ہیں کہ انہوں نے نکاح کے وقت نکاح نامے میں موجود اہم شقوں پر توجہ نہیں دی اور ان پر ٹِک مارک نہیں لگایا۔
پشاور ہائیکورٹ کے حکم پر صوبائی حکومت نے نئے نکاح نامے کا ڈرافٹ تیار کر لیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اکتوبر 2024 میں پشاور کی ایک وکیل نِدا گُل نے ایک رٹ پٹیشن (3768 پی) پشاور ہائیکورٹ میں دائر کی تھی اور عدالت کی توجہ نکاح نامے کو صحیح طریقے سے نہ بھرنے اور اس میں خاص طور پر حقِ مہر سے متعلق موجود خامیوں کی جانب توجہ دلائی گئی تھی۔
عدالت نے صوبائی حکومت کو نکاح نامے میں ترامیم کے حوالے سے احکامات جاری کیے تھے، جس پر عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ دو مہینوں میں نکاح نامے کو اپڈیٹ کر لیا جائے گا۔خود صوبائی وزیرِ قانون کے مشیر رئیس خان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’جب نکاح نامے میں جائیداد کی تفصیل موجود نہ ہو، اور اگر ایک خاتون عدالت سے رجوع بھی کرے، تب بھی اسے ریلیف نہیں ملتا، اور وہ جائیداد میں اپنا حصہ حاصل نہیں کر سکتی۔ اسی لیے ایسے مقدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومت کی جانب سے یہ ایک بڑی ترمیم کی گئی ہے۔‘ایڈووکیٹ ناصر غِلزئی فیملی کورٹ کے وکیل ہیں، ان کے پاس سینکڑوں ایسے کیسز ہیں جو طلاق، نان نفقہ اور حق مہر سے متعلق ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ہر ضلعے میں مختلف قسم کے نکاح نامے موجود ہیں، جو لوگ کمپیوٹر یا فوٹو سٹیٹ والوں سے حاصل کرتے ہیں، اور ان کا کوئی سیریل نمبر بھی نہیں ہوتا، جو غیرقانونی ہے۔’میری رائے ہے کہ نکاح رجسٹرار کو بائیومیٹرک کی سہولت فراہم کریں تاکہ نکاح کے فوراً بعد نکاح نامے کو نادرا میں رجسٹر کرایا جا سکے، اور اس میں کوئی ایک کالم بھی اگر بھرا ہوا نہ ہو تو اسے تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے۔‘ان کے مطابق نکاح نامے میں شق نمبر 13، 14 اور 15 اہم ہیں اور اس کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں دیتا۔
صوبائی محتسب رخشندہ ناز کی ترجیحات میں خواتین کے حقوق سے متعلق مسائل کو حل کرنا ہے۔(فوٹو: بشکریہ ایس او سی)
نکاح نامے کے ان شقوں میں کیا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اس جانب توجہ نہیں دیتے؟
پرانے نکاح نامہ میں شق 13 کے تحت (مہر کی رقم)، 14 (مہر کی کتنی رقم معجل اور کتنی موجل ہے) اور 15 (آیا مہر کا کچھ حصہ شادی کے وقت ادا کیا گیا، اگر کیا ہے تو کس قدر) (16) آیا پورے مہر یا اس کے کسی حصہ کے عوض میں کوئی جائیداد دی گئی تو اس جائیداد کی صراحت اور اس کی قیمت فریقین کے مابین طے پائی ہے)۔آج سے تقریباً پانچ دہائی قبل خاص طور پر پاکستان کے دیہی علاقوں میں گواہان کی موجودگی میں لوگ نکاح پڑھوا لیتے تھے اور حق مہر، جائیداد میں حصے سے متعلق کوئی بات نہیں کی جاتی تھی۔اس قسم کی صورتحال اب بھی پاکستان میں موجود ہے، لیکن اب نکاح نامے ہر شہر میں موجود ہیں اور لوگوں کے پاس نکاح نامہ کی صورت میں ایک دستاویز ہے لیکن وہ اس میں شامل نکات کو اہمیت نہیں دیتے۔خواتین کے حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ نکاح نامے میں صرف نام اور علاقے کا اندراج کافی نہیں، بلکہ اس میں وہ شقیں موجود ہونی چاہییں جو خواتین کو مستقبل میں قانونی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔2014 میں صوبائی کمیشن آن دی سٹیس آف وومن نے پشاور کے 18یونین کونسل میں ایک سروے کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 50 فیصد سے زیادہ خواتین اور یہاں تک کہ بہت سے مرد بھی اپنا نکاح نامہ نہیں پڑھ سکتے۔ شادی کے رجسٹریشن فارم بھرنے سے قبل 74 فیصد خواتین سے مشورہ نہیں کیا جاتا اور 40 فیصد شادی شدہ خواتین کو یہ بھی نہیں معلوم کہ نکاح نامے کو کس نے پُر کیا۔
ڈاکٹر رفعت خان کا کہنا ہے کہ شادی کے موقع پر کوئی بھی نکاح نامے اور حق مہر کے بارے میں بات نہیں کرتا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سلمیٰ خالد (فرضی نام) کا تعلق پشاور سے ہے۔ حال ہی میں ان کا نکاح ہوا ہے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ایک خاتون بھی اپنا نکاح نامہ پڑھ کر دستخط کر سکتی ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں سلمیٰ خالد نے کہا کہ ان کی ایک آنٹی نے انہیں نکاح نامہ پڑھ کر دستخط کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ’میرے سسرال والے بھی نکاح نامے کی شرائط نہیں مان رہے تھے، لڑکا راضی تھا، اور سسرالی کہہ رہے تھے کہ ہمارے خاندان میں ایسا نہیں ہوتا۔ تاہم وہ بعد میں راضی ہوگئے، جن کی سوچ مثبت ہو، تو وہ شرائط پر راضی ہو جاتے ہیں اور جو نہیں ہوتے تو ان کی نیت صحیح نہیں ہوتی۔‘انہوں نے کہا کہ اپنے اگرد گرد ایسے کیسز دیکھے ہیں کہ’اکثر خواتین طلاق کے معاملے پر مسائل سے دوچار ہو جاتی ہیں اور ضد اور انا کی وجہ سے بھی ان کو گھر پر بٹھایا دیا جاتا ہے۔‘خواتین کے حقوق کی کارکن ڈاکٹر رفعت خان کا کہنا ہے کہ شادی کے موقع پر کوئی بھی نکاح نامے اور حق مہر کے بارے میں بات نہیں کرتا۔انہوں نے کہا کہ نہ صرف شادی کرنے والوں کو نکاح نامے کی اہمیت کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے بلکہ ’نکاح رجسٹرار‘ کی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔’ہمارے معاشرے میں یہ کہا جاتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کو کیا پڑی ہے کہ نکاح نامہ اس کو دکھایا جائے، والدین خود فیصلہ کر لیتے ہیں اور ان سے زیادہ نکاح رجسٹرار خود ہی فیصلہ کرکے نکاح نامہ پُر کر دیتا ہے۔‘
خواتین کے حقوق کے کارکنان کے مطابق زیادہ تر خواتین کو نکاح نامے کا علم ہی نہیں ہوتا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
خیبر پختونخوا کی صوبائی محتسب رخشندہ ناز کی ترجیحات میں خواتین کے حقوق سے متعلق مسائل کو حل کرنا اور ان کو تحفظ دینا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اکثر خواتین اپنے حقوق کے لیے کھڑی نہیں ہو سکتیں۔ اگر وہ شوہر کا گھر چھوڑ کر آئیں گی، تو اس کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ گھر والے کہیں گے کہ گزارا کیوں نہیں کیا۔‘انہوں نے کہا کہ نکاح نامے کو صحیح طریقے سے نہ بھرنا پرانا مسئلہ ہے، جس کے لیے یونین کونسل کی سطح پر کام ہونا چاہیے اور نکاح نامہ رجسٹر ہونا چاہیے۔’نادرہ کے ساتھ نکاح نامے رجسٹرڈ ہوں گے، تو خواتین کو قانونی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘