پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے انڈین ایئرلائنز کو کتنا نقصان ہو گا؟

22 اپریل کو انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کا طیارہ 'انڈیا ون' دلی سے جدہ پہنچا تو اس نے پاکستانی فضائی حدود کا سہارہ لیا۔ مگر اسی روز انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد انڈیا ون نے جدہ سے واپس دلی پہنچنے کے لیے پاکستانی فضائی حدود کی بجائے بحیرۂ عرب کے روٹ کا انتخاب کیا۔ یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔

22 اپریل کو انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کا طیارہ ’انڈیا ون‘ دلی سے جدہ پہنچا تو اس نے پاکستانی فضائی حدود کا سہارہ لیا تھا۔ مگر اُسی روز انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد انڈیا ون نے جدہ سے واپس دلی پہنچنے کے لیے پاکستانی فضائی حدود کی بجائے بحیرۂ عرب کے روٹ کا انتخاب کیا۔

شاید یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔

پاکستان نے نئی دہلی کی طرف سے پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے طے شدہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی، اٹاری بارڈر کی بندش سمیت دیگر اقدامات کے جواب میں انڈین پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاحال انڈیا نے اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔

پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کا کہنا ہے کہ انڈین رجسٹرڈ طیاروں اور وہ طیارے جو انڈین ایئرلائنز یا آپریٹرز کی طرف سے چلائے جاتے ہیں، اُن کی ملکیت ہیں یا اُن کی جانب سے لیز کیے گئے ہیں، اُن تمام کے لیے پاکستانی فضائی حدود دستیاب نہیں ہو گی۔ پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے مزید کہا ہے کہ یہ اقدام انڈین فوجی پروازوں پر بھی لاگو ہو گا۔

ایئر ٹریفک کا ڈیٹا فراہم کرنے والی ویب سائٹ ’فلائٹ ریڈار 24‘ کے مطابق گذشتہ روز کیے جانے والے پاکستانی اعلان کے بعد بعض انڈین پروازوں پر سب سے زیادہ نظر رکھی جا رہی تھی، مثلاً دلی سے جرمنی، ٹورنٹو سے دلی اور کویت سے بنگلور۔ دو انڈین پروازیں (شارجہ سے احمد آباد اور امرتسر سے دبئی) اس اعلان کے وقت پاکستانی فضائی حدود میں تھیں، جنھیں اڑان جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔

پاکستان اور انڈیا کے مابین اس سفارتی بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے معروف سیاحتی مقام پہلگام میں مسلح افراد نے 26 افراد کو ہلاک کیا۔ یہ 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد انڈیا میں عام شہریوں پر سب سے بڑے حملوں میں سے ایک ہے۔

ان حملوں کی ذمہ داری اگرچہ کسی گروہ نے قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی انڈیا کی حکومت نے سرکاری سطح پر اس کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کی ہے تاہم کشمیر کی پولیس نے تین مبینہ حملہ آوروں کے خاکے جاری کرتے ہویے الزام عائد کیا ہے کہ اُن میں سے دو پاکستانی شہری ہیں۔ اگرچہ انڈین حکام نے اس حوالے سے کوئی شواہد یا تفصیلات جاری نہیں کی ہیں تاہم اسلام آباد نے اس نوعیت کے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔

ایک طرف جہاں پاکستان بجلی سے پیدا ہونے والی توانائی اور زرعی ضرورات کے اعتبار سے دریاؤں کے بہاؤ کے لیے انڈیا پر انحصار کرتا ہے تو وہیں انڈیا کے کئی شہروں سے یورپ، امریکہ اور مشرق وسطیٰ جانے والی پروازیں عموماً پاکستانی فضائی حدود استعمال کرتی ہیں۔

’اوور فلائٹ فیس‘: پاکستانی فضائی حدود انڈین ایئرلائنز کے لیے کیوں ضروری؟

ایئر لائنز کسی بھی ملک کے اوپر سے پرواز کرنے کے عوض ایک فیس ادا کرتی ہیں جسے ’اوور فلائٹ فیس‘ کہا جاتا ہے۔ جیسے کسی بھی ملک کو اپنی زمین کے حقوق حاصل ہوتے ہیں ویسے ہی انھیں اپنی فضائی حدود پر بھی مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔

زیادہ تر ممالک اپنی اپنی فضائی حدود کو غیر ملکی ایئر لائنز کو ’کرائے پر‘ دیتی ہیں اور وہ ایئر لائنز اس کے ذریعے پرواز کر سکتی ہیں۔

کچھ ممالک ہوائی ٹریفک کنٹرول کی سروسز بھی فراہم کرتے ہیں۔ فیس کا کچھ حصہ ان سروسز کے لیے بھی ہوتا ہے۔

دیگر ملکوں کی طرح پاکستان کے لیے بھی ایئرلائنز سے موصول ہونے والا یہ فضائی کرایہ آمدن کا ذریعہ ہیں۔ پاکستان غیر ملکی طیاروں کے ٹیک آف کے وقت وزن اور کلومیٹرز میں پرواز کے فاصلے کے اعتبار سے اوورفلائٹ فیس کا تعین کرتا ہے۔

بعض اوقات ایئر لائنز اس نوعیت کی فیس سے بچنے کے لیے لمبے روٹس بھی اپناتی ہیں۔ لیکن کسی فضائی حدود سے بچنا اتنا آسان بھی نہیں کیونکہ یہ کسی ملک کے سائز سے بھی زیادہ بڑی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کی فضائی حدود فلپائن تک پھیلی ہوئی ہے لیکن زمین کے اوپر پرواز کرنے کے مقابلے سمندر پر پرواز کرنے سے کم خرچ آتا ہے۔

اگرچہ پانی کے اوپر سے پرواز کرنے میں کم لاگت آتی ہے لیکن اس کے باوجود کچھ ایئر لائنز کو اب بھی امریکہ کو ادائیگی کرنی پڑتی ہے، چاہے وہ صرف آسٹریلیا سے جاپان ہی جا رہی ہوں۔

اسی طرح انڈیا سے وسطی و مغربی ایشیا، یورپ، برطانیہ اور امریکہ جانے والی پروازیں بحیرۂ عرب یا وسطی ایشیا کے طویل راستے کی بجائے عموماً پاکستان کی فضائی حدود کا استعمال کرتی ہیں۔ جب انڈین ایئرلائنز اس کا متبادل روٹ استعمال کرتی ہیں تو ان کے اخراجات جیسے ایندھن پر اٹھنے والے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔

پاکستان کی جانب سے فضائی حدود بند کرنے کے بعد انڈیا سے مغربی روٹ استعمال کرنے والی سب سے بڑی ایئرلائن ایئر انڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس اقدام سے ’شمالی امریکہ، برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ جانے یا وہاں سے آنے والی پروازوں کو متبادل طویل روٹ استعمال کرنا پڑے گا۔‘

ایئر انڈیا کا کہنا ہے کہ فضائی حدود کی غیر متوقع بندش ’ہمارے کنٹرول میں نہیں‘ اور ’صارفین کو پہنچنے والی اس تکلیف پر ایئر انڈیا کو افسوس ہے۔‘

جبکہ انڈین ایئرلائن انڈیگو کا کہنا ہے کہ پاکستانی فضائی حدود کی اچانک بندش کے اقدام سے ’ہماری چند انٹرنیشنل پروازیں متاثر ہوئی ہیں۔‘

دونوں ایئرلائنز نے صارفین سے کہا ہے کہ اگر اس معاملے سے ان کی پرواز متاثر ہوئی ہے تو وہ ریفنڈ (رقم واپسی) کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔

ایوی ایشن سروس ’سیریئم‘ نے انڈین نیوز ویب سائٹ لائیو منٹ کو بتایا ہے کہ اس اقدام سے سب سے زیادہ ایئر انڈیا اور دلی ایئرپورٹ متاثر ہوں گے۔ اس کے ڈیٹا کے مطابق دلی سے ایئر انڈیا کی یورپ اور شمالی امریکہ کے لیے ہفتہ وار 134 پروازیں اڑان بھرتی ہیں جو پاکستانی فضائی حدود استعمال کرتی ہیں۔

سیریئم کے مطابق دلی ایئرپورٹ سے سعودی، متحدہ عرب امارات، اومان، کویت، قطر اور بحرین کے لیے ہفتہ وار 144 پروازیں اڑان بھرتی ہیں اور یہ بھی پاکستانی فضائی حدود استعمال کرتی ہیں۔

یعنی ایک اندازے کے مطابق ایک ہفتے میں دلی ایئرپورٹ پر قریب 300 پروازیں متاثر ہوں گی جس میں اخراجات میں اضافے کے علاوہ پروازوں کی آمد اور روانگی کے اوقات میں تبدیلی شامل ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان نے اپنی فضائی حدود صرف انڈین طیاروں کے لیے بند کی ہے، یعنی غیر ملکی ایئرلائنز اب بھی پاکستانی فضائی حدود استعمال کر سکتی ہیں۔

2019 میں فضائی حدود کی بندش سے پاکستان اور انڈیا کو کتنا نقصان ہوا تھا؟

سنہ 2019 کی پاکستان-انڈیا کشیدگی فضائی حدود کی بندش کے حوالے سے ایک مثال ہے۔

فروری 2019 میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں نیم فوجی اہلکاروں پر ایک حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں شدت پسندوں کے ٹھکانے پر فضائی حملہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ جبکہ پاکستان کی جانب سے انڈیا کا جنگی طیارہ گِرایا گیا تھا۔

اس برس پاکستان نے قریب پانچ ماہ (فروری تا جولائی) انڈین پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھی جس سے انڈیا کی قومی ایئر لائن ایئر انڈیا سمیت دیگر انڈین ایئرلائنز کو بڑا نقصان ہوا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک اہم ایوی ایشن کوریڈور ہے۔ انڈیا کی جن پروازوں کو پاکستانی فضائی حدود سے گزرنا تھا، وہ منسوخ کی گئیں اور دیگر پروازوں کا روٹ تبدیل کرنا پڑا۔

سنہ 2019 میں انڈیا کے وزیر ہوا بازی ہردیپ سنگھ پوری نے پارلیمان کو بتایا تھا کہ ایئر انڈیا، سپائس جیٹ، انڈیگو اور گو ایئر جیسی انڈین ایئرلائنز کو پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے آٹھ کروڑ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

تین جولائی 2019 کو ہردیپ سنگھ پوری نے انڈیا کی راجیہ سبھا میں یہ سوال کیا تھا کہ 27 فروری 2019 سے پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے ایئر انڈیا اور دیگر انڈین ایئرلائنز کو کتنا نقصان جھیلنا پڑا ہے؟

اس کے جواب میں انھوں نے بتایا تھا کہ پاکستان کے اس ’یکطرفہ‘ اقدام سے ایئر انڈیا کو 491 کروڑ، انڈیگو کو 25.1 کروڑ، سپائس جیٹ کو 30.73 کروڑ اور گو ایئر کو 2.1 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔

اس کے علاوہ انھوں نے دسمبر 2019 کے دوران بتایا تھا کہ اس اقدام سے سفر کا دورانیہ بڑھا، صارفین کے لیے ٹکٹیں مہنگی ہوئیں، ایئر ٹریفک کنٹرولرز پر بوجھ بڑھا تھا۔

اس دوران بین الاقوامی ایئرلائنز کی پروازیں بھی متاثر ہوئی تھیں۔ جیسے امریکی کمپنی یونائیٹڈ ایئرلائنز نے فضائی حدود کی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے امریکہ سے دلی اور ممبئی کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دی تھیں۔

اس اقدام سے واضح طور پر انڈیا کی قومی ایئر لائن ایئر انڈیا کو سب سے زیادہ نقصان ہوا تھا۔ جب جولائی میں پاکستان نے انڈین پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بحال کی تھی تو اس وقت ایئر انڈیا کے ڈائریکٹر آپریشنز کیپٹن امیتابھ سنگھ کو بتایا تھا کہ اب انڈین پروازوں کو وقت اور ایندھن کی بچت ہوگی۔

انڈین نیوز ایجنسی ’اے این آئی‘ کو دیے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فضائی حدود کے کھلنے سے ’انڈیا سے یورپ اور انڈیا سے امریکہ جانے والی پروازوں کا دورانیہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک کم ہو جائے گا۔ ہماری ایندھن کی کھپت کم ہوگی۔ اخراجات میں بڑی کمی آئے گی۔‘

ایئر انڈیا کے اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے اسے یومیہ چھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔

مگر فضائی حدود کو انڈیا کے لیے بند کرنے کا اقدام پاکستان کو بھی مہنگا پڑا تھا۔

18 جولائی 2019 کو اس وقت کے پاکستان کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ فروری سے جولائی تک فضائی حدود کی پابندی سے پاکستان سول ایوی ایشن کو 8.5 ارب روپے (پانچ کروڑ ڈالر) کا نقصان ہوا تھا۔

سول ایوی ایشن کے ہیڈکوارٹر سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایوی ایشن کی صنعت کے لیے یہ بڑا نقصان ہے ’مگر انڈیا اِن پابندی سے زیادہ متاثر ہوا۔ انڈیا کا نقصان دگنا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.