توہینِ مذہب کے مقدمات اور ایف آئی اے پر عدالت کا اعتراض: ’ادارے خود ہی قانون میں درج ضابطہ کار کا احترام نہیں کرتے‘

توہین مذہب کے مقدمات کے اندراج سے پہلے حقائق کا جائزہ لینے سے متعلق کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے درخواستوں پر سماعت مکمل ہونے کو ہے اور ان درخواستوں کی سماعت کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار اسحاق نے یہ عندیہ دیا ہے کہ کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے ان درخواستوں پر فیصلہ رواں ہفتے ہی کر دیا جائے گا۔
police
Getty Images

توہین مذہب کے مقدمات کے اندراج سے پہلے حقائق کا جائزہ لینے سے متعلق کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے درخواستوں پر سماعت مکمل ہونے کو ہے اور ان درخواستوں کی سماعت کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار اسحاق نے یہ عندیہ دیا ہے کہ کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے ان درخواستوں پر فیصلہ رواں ہفتے ہی کر دیا جائے گا۔

کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے ایک سو سے زائد درخواست گزار ہیں جن کے رشتہ داروں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج ہیں اور ان میں سے متعدد کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں جن کے خلاف اپیلیں مختلف ہائی کورٹس میں زیرِ سماعت ہیں۔

کمیشن پر تشکیل کے حوالے سے دائر درخواستوں پر اب تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں 39 سماعتیں ہو چکی ہیں۔

ان سماعتوں میں جس نقطے پر سب سے زیادہ بات کی گئی ہے وہ ان کے اندارج کے حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کے سائبر کرائم کے طریقہ کار کے بارے میں ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس سردار اسحاق خان توہینِ مذہب کے مقدمات کے اندراج سے پہلے کمیشن کی تشکیل کے سلسلے میں ایسے ایک سو سے زائد افراد کی درخواستوں کی سماعت کر رہے ہیں جن کے خلاف سوشل میڈیا پر ایسا مواد شائع کرنے یا شیئر کرنے کی بنیاد پر مقدمات درج کیے گئے ہیں جو کہ توہینِ مذہب کے زمرے میں آتے ہیں۔

ان میں سے کچھ افراد کو ٹرائل کورٹ سے سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں جبکہ کچھ ابھی تک جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

ان درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ جو اب نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن اتھارٹی بن چکی ہے، کے اہلکاروں سے متعدد بار سوالات کیے گئے کہ توہینِ مذہب کے مقدمات کا اندراج کیسے کیا جاتا ہے۔

عدالت کی جانب سے پوچھے جانے والے ان سوالات کے جواب میں عدالت کو ہر بار یہی بتایا جاتا رہا کہ ان کے پاستوہینِ مذہب کے مقدمے کے اندراج کے لیے جو درخواست آتی ہے تو وہ درخواست گزار اور شیئر کرنے والے کے موبائل ڈیٹا کا فرانزک کر کے اسے گرفتار کر لیتے ہیں۔

عدالت کی طرف سے متعدد بار جب یہ پوچھا گیا کہ کیا کبھی شکایت کنندہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو چیک کیا گیا اور کیا اس کے موبائل کو قبضے میں لے کر اس کا فرانزک کروایا گیا؟

تو نیشنل سائبر کرائم اتھارٹی کے حکام کی جانب سے یہ جواب دیا گیا کہ ’کبھی اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔‘

Getty Images
Getty Images

توہینِ مذہب کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل عثمان وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’توہینِ مذہب کے مقدمات کے اندارج کے لیے جو طریقۂ کار درج کیا گیا ہے اس کے مطابق اگر کسی شخص کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمے کے اندراج کے لیے کوئی درخواست آتی ہے تو ایسے شخص کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے کہ وہ تین دن کے اندر اندر متعقلہ حکام کے سامنے پیش ہوکر اپنی پوزیشن واضح کرے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر وہ شخص پہلے نوٹس کی تعمیل کرتے ہوئے پیش نہیں ہوتا تو پھر اس کو سائبر کرائم ونگ کے انچارج جو کہ ڈائریکٹر لیول کا افسر ہوتا ہے، کے حکم پردوبارہ نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ جس میں مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے مرتکب شخص کو تین روز میں متعقلہ حکامکے سامنے پیش ہونے کا کہا جاتا ہے۔‘

عثمان وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ شخص متعقلہ حکام کے سامنے پیش ہو کر اپنی وضاحت دے دیتا ہے یا اپنے دفاع میں کوئی ثبوت پیش کردتیا ہے جس کو متعقلہ حکام بھی تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر یہ معاملہ انکوائری کی سطح پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔‘

تاہم اس کا فیصلہ بھی سائبر کرائم ونگ کا انچارج ہی کرتا ہے کہ یہ معاملہ انکوائری پر ہی ختم کرنا ہے یا پھر اس کو لے کر آگے جاتے ہوئے مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’متعلقہ حکام قانون میں درج کیے گئے اس ضابطہ کار کا احترام نہیں کرتے۔‘

سائبر کرائم اتھارٹی کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران متعلقہ حکام نے توہین مذہب کے مقدمات کے حوالے سے جو طریقہ کار اپنایا ہوا ہے اس کے مطابق جب بھی توہین مذہب کے مقدمے کے اندراج کے لیے کوئی درخواست آتی ہے تو مقدمہ درج ہونے سے پہلے اس بندے کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔

اہلکار کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دوران کبھی بھی شکایت کنندہ کا موبائل قبضے میں لے کر اس کا فرانزک نہیں کروایا گیا۔

اہلکار کا کہنا تھا کہ شکایت کنندہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ میں اس مواد کا سکرین شاٹ لیا جاتا ہے جس کو بنیاد بنا کر اس نے توہین مذہب کے مقدمے کے اندراج کے لیے درخواست دی ہے۔

توہینِ مذہب کے مقدمات کے اندراج سے پہلے کمیشن کی تشکیل کے لیے درخواستوں کی سماعت کے دوران بھی ایف آئی اے کے حکام نے عدالت میں تسلیم کیا کہ انھیں ان مقدمات کی تفتیش میں شکایت کنندہ کا موبائل قبضے میں لینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔

اہلکار کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کے بعض مقدمات میں ایک ہی شکایت کنندہ ہے اور حکام ان مقدمات کے اندراج کے لیے اس پہلو کو زیرِتفتیش ہی نہیں لے کر آئے کہ توہین مذہب کے تین چار مقدمات میں ایک ہی شکایت کنندہ کیوں ہے۔

Getty Images
Getty Images

توہینِ مذہب کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل سیف الملوک کا کہنا ہے کہ ’اگر توہینِ مذہب کے مقدمات کے اندراج کے حوالے سے کوئی درخواست سامنے آتی ہے تو پہلے اس درخواست کی ویریفیکیشن کی جائے گی اور درخواست درست اور حقائق پر مبنی ہونے کی بنیاد پر ہی اس پر انکوائری شروع ہو سکتی ہے۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے انکوائری کی سطح پر ہی مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے مرتکب شخص کو اس گھر پر چھاپے کے دوران گرفتار کر لیا جاتا ہے اور وہاں سے ہی سائبر کرائم ونگ کے حکام مقدمے کے اندارج کے لیے استغاثہ بھیج دیتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پولیس ایکٹ کے رول چھبیس میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ پولیس آفیسر اس وقت تک کسی شخص کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی ضمنی رپورٹ بھی تحریر نہیں کرے گا جب تک اس کے پاس کسی ملزم کے خلاف ناقابل تردید شواہد نہ آجائیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ضابطہ فوجداری کے تحت جتنے بھی جرائم آتے ہیں اس میں جرم کا ارتکاب کرنے والے ملزم کی نیت کو دیکھا جاتا ہے کہ آیا ملزم کی اس جرم کے ارتکاب کرنے کی نیت تھی بھی یہ نہیں لیکن توہینِ مذہب ایک ایسا جرم ہے جس میں ملزم کی جرم کے ارکاب کرنے کی نیت کو زیرِ تفتیش لایا ہی نہیں جاتا۔‘

سیف الملوک ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’اس جرم کے مرتکب شخص کی نیت کو مدِنظر نہ رکھنے کی سب سے بڑی وجہ فیڈرل شریعت کورٹ کے پانچ ججز کا سنہ 1891 میں دیا گیا وہ فیصلہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر ایسے شواہد سامنے آ جائیں کہ ملزم توہینِ مذہب کا مرتکب ہوا ہے تو پھر ملزم کی نیت دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر شواہد میں کچھ شکوک و شبہات ہوں تو پھر تفتیشی ادارے ملزم کی نیت کا تعین کر سکتے ہیں اور معاملے پر تفتیش کر سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس وقت کی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے ایپلٹ بینچ میں اپیل دائر کی تھی جو کہ بعد میں واپس لے لی گئی۔‘

EPA
EPA

انھوں نے کہا کہ ’پہلے کبھی کبھار ملک میں توہینِ مذہب کے مقدمات درج ہوتے تھے لیکن گذشتہ تین سال کے دوران ملک بھر میں ساڑھے چھ سو سے زائد مقدمات درج ہو چکے ہیں۔‘

جس میں سیف الملوک کے بقول سائبر کرائم ونگ کے متعلقہ حکام نے ضابطہ کار کو کبھی بھی ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔

واضح رہے کہ سیف الملوک ایڈووکیٹ نے آسیہ بی بی کے خلاف درج ہونے والے توہینِ مذہب کے مقدمے کی پیروی کی تھی اور اس مقدمے میں ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ نے انھیں موت کی سزا سنائی تھی تاہم سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا اور رہائی کے فوری بعد آسیہ بی بی اپنی فیملی سمیت بیرون ملک چلی گئی تھیں۔ چند مذہبی جماعتوں بالخصوص تحریکِ لبیک نے اس عدالتی فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کیا تھا۔

توہینِ مذہب کے مقدمات کے اندراج سے پہلے کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواستوں کی سماعت کے دوران جو اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں اس کے مطابق گذشتہ تین سال کے دوران ملک بھر میں توہینِ مذہب کے 348 ایسے واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔

ان درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے ایف آئی اے حکام سے یہ بھی پوچھا تھا کہ توہینِ مذہب کے مقدمات کی تفتیش کے دوران کبھی اس نقطے کو بھی زیرِ تفتیش لایا گیا کہ ہو سکتا ہے کہ شکایت کنندہ اور جس کے خلاف مقدمے کے اندارج کے لیے درخواست دی گئی ہے وہ سوشل میڈیا میں واٹس ایپ گروپ میں ایک ساتھ ہوں یا پھر فیس بک پر ایک دوسرے کے دوست ہوں؟

تو سائبر کرائم اتھارٹی کے حکام کا موقف یہ تھا کہ وہ صرف اس حد تک تفتیش کرتے ہیں کہ کیا شکایت کنندہ کی طرف سے پیش کیا جانے والہ مواد درست ہے اور جس کے خلاف شکایت آئی ہے وہ توہینِ مذہب کا مرتکب ہوا ہے یا نہیں۔

واضح رہے کہ سائبر کرائم ونگ کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کی جانب سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا تھا جس میں اس بات کا ذکر تھا کہ سائبر کرائم ونگ کے کچھ اہلکار ان خواتین کے ساتھ رابطے میں ہیں جو سوشل میڈیا پر معصوم لوگوں کو پھنسا کر انھیں بلیک میل کرکے ان سے پیسے وصول کرتی ہیں۔

اس مراسلے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا تھا کہ سائبر کرائم ونگ کے اہلکار سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا یہ مواد ملزم کے فون سے ریکور کرکے حقائق کو جانے بغیر ان کے خلاف مقدمات درج کر رہے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts