کراچی کے علاقے پی ای سی ایچ ایس بلاک 2 میں 25 اور 26 جون کی درمیانی شب ڈکیتی کی ایسی واردات ہوئی جس نے سب کو چونکا دیا۔اس واردات میں ایک کاروباری شخص سے 13 کروڑ روپے لوٹ لیے گئے۔ مبینہ طور پر معروف ٹک ٹاکر بہن بھائیوں نے خود کو ایف آئی اے کا اہلکار ظاہر کر کے یہ واردات کی۔سوشل میڈیا کی چمک دمک میں چھپے ان چہروں کی اصل حقیقت کیا ہے اور پولیس نے انہیں کیسے شناخت کیا؟اس واردات نے ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور جرائم کے باہم جڑے ہوئے خطرناک امتزاج کے حوالے سے ایک نیا سوال کھڑا کر دیا ہے۔ملزمان نے ڈکیتی کی واردات کیسے کی؟ایف آئی آر کے مطابق ڈکیتی کی یہ واردات رات ساڑھے تین بجے اس وقت کی گئی جب متاثرہ شخص محمد سالک ولد نجم الحسین خالد بن ولید روڈ سے اپنے گھر پی ای سی ایچ ایس بلاک 2 واپس آیا۔وہ اپنی گاڑی گھر کے نیچے پارک کر ہی رہا تھا کہ ایک سیاہ رنگ کی گاڑی اس کے قریب آ کر رُکی۔ گاڑی سے اترنے والے دو مسلح مردوں اور تین برقعہ پوش خواتین نے خود کو ایف آئی اے کا اہلکار ظاہر کیا اور محمد سالک کو گھر کے اندر چلنے پر مجبور کیا۔ایف آئی آر کے مطابق ایک مرد ملزم نے ایف آئی اے کی وردی پہن رکھی تھی جس پر ادارے کا مونوگرام بھی چسپاں تھا، جس سے ان ڈاکوئوں کو دھوکا دینے میں کامیابی ملی۔مدعی مقدمہ نے پولیس کو بتایا کہ گھر میں داخل ہونے کے بعد ملزموں نے اسلحے کے زور پر 13 کروڑ روپے نقد، 9 قیمتی موبائل فونز (جن میں آئی فون اور گوگل پکسل شامل تھے)، 20 مہنگی گھڑیاں، 25 پرفیومز، 2 لیپ ٹاپ، اور دیگر قیمتی سامان لوٹا۔پولیس کے مطابق یہ تمام کارروائی انتہائی منظم اور منصوبہ بندی کے تحت کی گئی تھی۔
پولیس نے واردات کے فورا بعد جائے وقوعہ سے سی سی ٹی وی فوٹیجز اکٹھی کیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
چند ہی دنوں میں اس واردات کی تفتیش میں ایک غیرمعمولی موڑ آیا جب پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیجز اور موبائل فون ڈیٹا کی مدد سے 3 افراد کو گرفتار کیا، ان ملزموں میں یسرا زیب، نمرا زیب اور ان کا بھائی شہریار شامل ہیں جبکہ چوتھا ملزم شہروز تاحال مفرور ہے۔
تفتیش کے دوران ہونے والے اس انکشاف نے سب کو حیران کر دیا کہ یسرا زیب ایک جانی پہچانی ٹک ٹاکر ہے جس کے ہزاروں فالوورز ہیں، اور وہ مقامی برانڈز کے لیے ماڈلنگ بھی کر چکی ہیں۔کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس کے ایک سینیئر افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر یسرا کی ایسی متعدد تصاویر موجود ہیں جن میں وہ ملکی اور غیرملکی فنکاروں کے ساتھ نظر آ رہی ہے۔ اس کی ویڈیوز اور سوشل میڈیا کی مقبولیت ہی وہ عوامل بنے جنہوں نے آخرکار اسے پہچاننے میں مدد دی۔سوشل میڈیا پر جانے پہچانے چہرے؟یہ صرف ڈکیتی کی ایک واردات نہیں بلکہ یہ ایک سماجی حقیقت بھی اجاگر کرتی ہے جب مبینہ ملزموں کا چہرہ ہماری روزمرہ کی سوشل میڈیا فیڈز میں مسکراتا نظر آئے، تو اعتماد اور حقیقت کا توازن کہاں جا کر بگڑتا ہے؟سائبر کرائم ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والے افراد پر اثر و رسوخ کی ایک خاص تہہ چڑھ جاتی ہے۔ مگر جب یہ لوگ قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں، تو ان کا عوامی امیج ایک طاقتور ہتھیار میں تبدیل ہو جاتا ہے جو دھوکہ دہی کو مزید آسان بناتا ہے۔پولیس ملزموں تک کیسے پہنچی؟پولیس نے واردات کے فورا بعد جائے وقوعہ سے سی سی ٹی وی فوٹیجز اکٹھی کیں۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر موجود ان مشتبہ افراد کی ویڈیوز اور تصاویر کا تجزیہ کیا گیا۔
پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیجز اور موبائل فون ڈیٹا کی مدد سے 3 افراد کو گرفتار کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
تفتیشی ٹیم کے مطابق گرفتار ملزموں کی نقل و حرکت اور سوشل میڈیا پر ان کی موجودگی کے درمیان مماثلت پائی گئی، جس سے ان کی شناخت ممکن ہوئی۔
کیا ملزمان کی یہ پہلی واردات تھی؟پولیس کا کہنا ہے کہ یسرا زیب اور اس کے ساتھیوں سے دیگر وارداتوں کی بھی چھان بین جاری ہے۔ ملزمان کا طریقہ واردات غیر روایتی مگر منظم تھا۔ جعلی شناخت، ایف آئی اے کی وردی، سوشل میڈیا کی چمک، اور مکمل اعتماد کے ساتھ گھر میں داخل ہو کر سب کچھ لوٹ لینا۔واردات کا مقدمہ تھانہ فیروزآباد میں درج کر لیا گیا ہے۔ ایس پی جمشید ڈویژن کے مطابق دیگر مفرور ملزموں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں جبکہ فیروز آباد پولیس نے گرفتار ملزمان کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کیا ہے تاکہ کیس کی مزید تفتیش کی جاسکے۔پولیس پرامید ہے کہ جلد ہی لوٹی گئی رقم اور اشیا برآمد کر لی جائیں گی۔