کراچی کے رہائشی 79 سالہ علی حسن بقائی نے انڈیا میں رہنے والے اپنے بہن بھائیوں سے ملاقات نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جمعرات کو جب پاکستان کی جانب سے انڈین ایئرلائنز کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرنے کا اعلان کیا تو علی حسن بقائی نے گھر پر اپنی اہلیہ اور پوتے پوتیوں کے ساتھ بیٹھے ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے تھے۔علی حسن بقائی نے روئٹرز ٹیلی ویژن کو بتایا کہ ’میں انڈیا جانے کا ارادہ کر رہا تھا۔ وہاں موجود میری بہنیں بھی پاکستان آنے کا ارادہ کر رہی تھیں۔ لیکن اچانک یہ حملہ ہوا، ہم اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ حالات بالکل نارمل تھے لیکن اچانک حالات خراب ہو گئے۔‘پاکستان کی جانب سے ایئرسپیس یا فضائی حدود بند کرنے کا یہ اقدام انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں سیاحوں پر عسکریت پسندوں کے مہلک کے حملے کے بعد انڈین حکومت کی طرف سے کارروائیوں کے جواب میں کیا گیا ہے۔نئی دہلی نے کہا تھا کہ پہلگام میں سیاحوں پر حملے میں پاکستان ملوث ہے۔ پاکستانی حکام نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔تازہ ترین سفارتی بحران منگل کے روز انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کے ایک مشہور سیاحتی مقام پر 26 افراد کی ہلاکت سے پیدا ہوا، جو 2008 کے ممبئی فائرنگ کے بعد عام شہریوں پر ہونے والا بدترین حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں اور حالیہ دوطرفہ اقدامات کے نتیجے میں سفارتی تعلقات کم ترین سطح پر آ چکے ہیں۔جب بھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات خراب ہوتے ہیں، بزرگ شہری علی حسن بقائی اپنے بہن بھائیوں سے ملنے اور سرحد کے دوسری طرف اپنی جائے پیدائش کو دیکھنے کی خواہش کے ساتھ خود کو کراچی میں محصور پاتے ہیں۔
نئی دہلی نے کہا تھا کہ پہلگام میں سیاحوں پر حملے میں پاکستان ملوث ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
علی حسن بقائی 1947 میں برصغیر کی تقسیم سے ایک سال قبل 1946 میں دہلی، انڈیا میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ آخری بار 2014 میں دہلی جا سکے تھے۔ بعد کے برسوں میں ان کی والدہ کے ساتھ ان کی دو بہنوں کا انتقال ہو گیا۔ ان کے تین بھائی گزشتہ برس انڈیا میں انتقال کر گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر ہمیں موقع نہیں ملتا اور سرحدیں طویل عرصے تک بند رہتی ہیں تو ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ہم دبئی جائیں اور وہاں ایک دوسرے سے ملیں۔‘’ہم اپنے رشتہ داروں سے نہیں مل سکتے، نہ ہم وہاں جا سکتے ہیں، نہ وہ آ سکتے ہیں، یہ اب مذاق بن گیا ہے، کوئی امید باقی نہیں رہی۔‘