مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے پاکستان آنے والوں کو ویزے میں ریلیف دینے کا فیصلہ

image

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدہ سفارتی تعلقات کے تناظر میں دونوں ممالک نے حالیہ دنوں میں ایک دوسرے کے شہریوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی تھی۔

دونوں ممالک کے شہریوں کو دی جانے والی یہ مہلت سنیچر کو ختم ہوجائے گی جس کے باعث بیسیوں افراد شدید ذہنی دباؤ اور بے یقینی کا شکار ہو گئے ہیں۔

تاہم ایسے میں حکومتِ پاکستان نے انسانی اور مذہبی بنیادوں پر ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے ملک میں موجود انڈین ہندو اور سکھ یاتریوں کو وقتی ریلیف دینے کا اعلان کیا ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق ’پاکستان میں موجود وہ انڈین شہری جو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے آئے ہیں، جیسے کہ بلوچستان کے ہنگلاج ماتا مندر یا سندھ کے پرانے شیو مندروں میں حاضری کے لیے، تو انہیں فوری طور پر ملک چھوڑنے کے حکم سے وقتی طور پر استثنیٰ دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم تنگ نظر نہیں اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے آنے والے افراد کے حوالے سے ہماری ذمہ داری ہے کہ انہیں سہولیات فراہم کریں۔‘

اس ریلیف کا اطلاق ان انڈین سکھ یاتریوں پر بھی ہوگا جو پنجاب میں واقع گردواروں کی زیارت کے لیے پاکستان میں موجود ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ’اس وقت اگرچہ کوئی بڑا مذہبی تہوار جاری نہیں، لیکن ہنگلاج ماتا مندر اور دیگر مقدس مقامات پر سال بھر یاتریوں کی آمد جاری رہتی ہے۔‘

’ایسے میں زائرین کو زبردستی نکالنا نہ صرف انسانی ہمدردی کے تقاضوں کے خلاف ہوتا بلکہ مذہبی رواداری کے اصولوں سے بھی متصادم ہوتا۔‘

کراچی میں مقیم مہاراج رام ناتھ، جو شری پنچ مکھی ہنومان مندر کے گدی نشین اور مقامی منتظمین میں شامل ہیں، نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس فیصلے کو سراہا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ’مذہب کی خدمت کرنے والے یاتری کسی سیاسی مقصد سے نہیں آتے۔ حکومتِ پاکستان کا یہ قدم انسانیت اور رواداری کی علامت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ایسے فیصلے دونوں ممالک کے درمیان فاصلے کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔‘

وزارت دفاع کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہماری پالیسیوں میں سختی اپنی جگہ، مگر ہم مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے آنے والوں کے ساتھ احترام اور نرمی کا رویہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ اسی جذبے کا عکاس ہے۔‘

اس فیصلے کو بعض تجزیہ کار پاکستان کی مذہبی ہم آہنگی اور اقلیتوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی ایک مثبت مثال کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

کچھ اسے ایک محتاط سفارتی پیغام بھی قرار دے رہے ہیں کہ مذہب اور انسانیت کو سیاست سے بالاتر رکھا جانا چاہیے۔

پاکستان میں ہندو برادری کے مذہبی مقامات

پاکستان میں بسنے والی ہندو برادری کے لیے یہ فیصلہ بھی اہم ہے کیونکہ ان مقدس مقامات سے ان کے عقائد، ثقافت اور رُوحانی زندگی جُڑی ہوئی ہے۔

سندھ، جہاں پاکستان کی سب سے بڑی ہندو آبادی مقیم ہے، وہاں ہر سال درجنوں میلوں اور مذہبی رسومات کا انعقاد ہوتا ہے۔ ان میں عمرکوٹ کا راما پیر کا میلہ، تھرپارکر کے مندروں میں شیو راتری، اور مانجند کے بھگوان کرشن مندر کی تقریبات شامل ہیں۔

اسی طرح بلوچستان میں واقع ہنگلاج ماتا کا مندر نہ صرف انڈین ہندو یاتریوں بلکہ پاکستان کے اندرونی علاقوں سے آنے والے ہندو زائرین کے لیے بھی انتہائی مقدس مقام ہے۔ یہاں سال بھر مختلف رسومات، ماتا کی پوجا اور خیرات کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔

مذہبی آزادی اور آئینی تحفظ

پاکستان کا آئین اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے، تاہم موجودہ سفارتی تناؤ کے سبب اقلیتوں کو متاثر ہونے سے بچانے کے لیے ایسے فیصلے ناگزیر ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت کے اس وقتی ریلیف کو انسانی ہمدردی، مذہبی احترام اور آئینی تقاضوں کے مطابق قرار دیا جا رہا ہے۔

ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن مکیشن چندو نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں سرحدوں کے اس پار چاہے جو بھی حالات ہوں، مذہبی معاملات کو اس سے الگ رکھا جائے۔ یاتری اگر خوف یا دباؤ میں اپنی عبادات مکمل نہیں کر پاتے تو یہ ہم سب کی اجتماعی ناکامی ہوگی۔‘

یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے شہریوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی تھیں۔

اس سے نہ صرف طلبہ، مریض اور کاروباری افراد متاثر ہوئے بلکہ وہ زائرین بھی پریشان ہو گئے جو ویزا کی مدت کے دوران مذہبی مقامات پر قیام پذیر تھے۔

حکومتی فیصلے کے بعد اگرچہ یہ ریلیف محدود مدت اور مخصوص افراد کے لیے ہے، مگر اسے مستقبل میں مذہبی بنیادوں پر پالیسی سازی کے تناظر میں ایک اہم مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.