لاہور پولیس نے ایک فون کال کے ذریعے 13 سال بعد ڈکیتی کے ملزم کو کیسے پکڑا؟

image
یہ معمول کی ایک فون کال تھی۔ نہ زیادہ طویل، نہ ہی اس میں کچھ ایسا خاص تھا کہ پولیس اسے ٹریس کرتی لیکن لاہور پولیس کے لیے یہی کال ایک بھولی بسری واردات کو فیصلہ کن موڑ دینے کا سبب بن گئی۔ اس ایک فون کال کے بعد 13 برس سے بند ڈکیتی کے ایک مقدمے کی فائل جس پر گرد کی تہیں جم چکی تھیں، دوبارہ سے کھل گئی۔

صوبائی دارالحکومت لاہور میں فیصل ٹاؤن پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسے ڈکیت کو گرفتار کیا ہے جو 13 سال قبل ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن کے ایک گھر میں ڈکیتی کی سنگین واردات میں ملوث تھا۔ اُس کی گرفتاری واردات کے پورے 13 سال بعد عمل میں لائی گئی جس میں ایک فون کال کا کردار فیصلہ کن تھا۔ 

تھانہ فیصل ٹاؤن میں 3 نومبر 2012 کو ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن کے رہائشی مبشر سعید کی مدعیت میں ایک ایف آئی آر درج ہوئی۔

ایف آئی آر کے مطابق نومبر 2012 میں مبشر سعید اپنے گھر میں موجود تھے جب ان کے ملازم بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس آئے تو اس دوران باہر سے شور کی آواز بلند ہوئی۔

مقدمہ کے مدعی کے مطابق میں جب باہر نکلا تو دیکھا چار لڑکے میرے ملازم سے الجھ رہے تھے۔ میرے استفسار کرنے پر ملزموں نے میرے سر پر بندوق تان لی اور مجھے گھر کے اندر لے گئے۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق ڈاکوؤں نے مبشر، ان کی اہلیہ اور ملازم کو پستول کے بٹ سے مارا اور انہیں باندھ کر زیورات و نقدی کا مطالبہ کرتے رہے۔

ایف آئی آر میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’ملزموں نے مبشر کی شناخت بینکر کے طور پر کی اور انہیں ’امیر آدمی‘ کہہ کر دھمکیاں دیں۔‘

مقدمے کے متن کے مطابق ڈاکو گھر کی الماریاں توڑ کر دو انگوٹھیاں، دو گھڑیاں، تین پرفیومز، موبائل فون، نقدی اور دیگر قیمتی سامان لوٹ کر فرار ہو گئے۔

ترجمان ایس پی ماڈل ٹاؤن کے مطابق پولیس نے ابتدائی طور پر بیانات قلمبند کیے اور جائے وقوعہ سے شواہد جمع کر کے کارروائی کا آغاز کیا۔

یہ ملزم اپنے آبائی علاقے میں جا کر حلیہ تبدیل کر لیتے ہیں اور زیر استعمال موبائل فون سمز بند کر دیتے ہیں (فوٹو: پنجاب پولیس)

ترجمان ایس پی ماڈل ٹاؤن عثمان لیاقت مزید بتاتے ہیں کہ ’اس طرح کی واردات میں جائے وقوعہ سے تمام شواہد اکھٹے کیے جاتے ہیں اور جیو فینسنگ کے ذریعے ارد گرد استعمال ہونے والے فون نمبرز کا ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے تاہم ملزم عموماً واردات کے بعد شہر چھوڑ کر اپنے علاقوں میں منتقل ہو جاتے ہیں جس کے باعث ایسے مقدمات میں پیش رفت نہیں ہو پاتی اور یہ مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔‘

ان کے مطابق یہ ملزم اپنے آبائی علاقے میں جا کر حلیہ تبدیل کر لیتے ہیں اور زیر استعمال موبائل فون سمز بند کر دیتے ہیں۔

انہوں نے اس حوالے سے کہا کہ ’اس کیس میں بھی یہی پیٹرن نظر آیا۔ ملزم اپنے آبائی گاؤں لوٹ گیا جب کہ پولیس نے تمام تر ڈیٹا اکھٹا کر کے ہر ممکن طریقے سے ملزم کو ٹریس کرنے کی کوشش جاری رکھی اور یہ کوشش ایک دہائی سے زائد عرصہ تک جاری رہی۔ ‘

پولیس حکام کے مطابق کیس کی پیروی جاری تھی اور ملزم کے زیر استعمال نمبرز سمیت اس کے رشتہ داروں اور دیگر عزیز و اقارب پر نظر رکھی جا رہی تھی۔

عثمان لیاقت کے بقول ’جدید ٹیکنالوجی میں فون کالز کا ڈیٹا، بس سٹینڈز پر نقل و حمل، جیو فینسنگ اور سوشل میڈیا پر تصویر اپلوڈ کرنا شامل ہے۔ اس کیس میں ہم نے فیملی ٹری پر نظر رکھی۔ یعنی ان کے فیملی ممبرز کون ہیں اور وہ کہاں کہاں رہتے ہیں۔ پولیس نے ان کے نمبرز کو ٹریسنگ پر رکھا ہوا تھا۔‘ 

پولیس اس انتظار میں تھی کہ فیملی ٹری میں شامل افراد کو یا تو براہِ راست ملزم کی جانب سے فون کال موصول ہو یا کسی نامعلوم نمبر سے رابطہ کیا جائے تو ملزم کو پکڑا جا سکتا ہے۔

پولیس کے مطابق ملزم سے سرِدست کوئی ریکوری نہیں ہوئی جب کہ مزید تفتیش جاری ہے (فوٹو: پنجاب پولیس)

تفتیش میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب مشتبہ نمبرز کی فہرست میں سے ایک سے خاندان کے رکن کے فون پر آنے والی ایک کال پر پولیس کی نظر پڑی۔ یہ فون کال بہاولپور سے آئی تھی اور یہی فون کال ملزم کو 13 سال بعد پکڑنے میں معاون ثابت ہوئی۔ اس فون کال سے پولیس کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہی وہ دھاگا ہے جسے کھینچنے سے برسوں پرانے اس کیس کی فائل کی گرہ کھل سکتی ہے۔

ترجمان ایس پی ماڈل ٹاؤن بتاتے ہیں کہ ‘13 سال بعد فیملی ٹری میں شامل فیملی ممبر کو ایک فون کال موصول ہوئی جو مشکوک پائی گئی۔ پولیس نے جب تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ یہ وہی ملزم ہے جس نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر واردات کی تھی اور جو اب بہاولپور میں مقیم تھا۔ پولیس نے متعلقہ تھانے سے رابطہ کر کے تصدیق کر کے چھاپہ مارا اور ملزم کو گرفتار کر لیا۔‘

پولیس کے مطابق ملزم سے سرِدست کوئی ریکوری نہیں ہوئی جب کہ مزید تفتیش جاری ہے۔

حکام کے مطابق چار ملزموں میں سے مرکزی ملزم گرفتار ہوچکا ہے جس کے بعد مزید ملزموں کی گرفتاری کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ایک بیان میں ایس پی ماڈل ٹاؤن اخلاق اللہ تارڑ نے بتایا ہے کہ ’گرفتار ملزم سے تفتیش کی جا رہی ہے جبکہ اشتہاریوں کے خلاف صوبائی دارالحکومت میں کریک ڈاؤن جاری ہے۔‘

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.