سابق طالبان کمانڈر نے امریکی فوجی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے لیے سہولت کاری کرنے اور صحافیوں کے اغوا میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا ہے۔خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حاجی نجیب اللہ نے مین ہٹن کی وفاقی عدالت میں اپیل جمع کرائی جس میں انہوں نے دہشت گردی کی کارروائیوں اور یرغمال بنانے کی سازش میں مالی امداد فراہم کرنے کا جرم قبول کیا ہے۔
انہوں نے امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے اور 2008 میں دی نیویارک ٹائمز کے رپورٹر اور ایک اور صحافی کو اغوا کرنے میں مرکزی کردار ادا کرنے کا اعتراف کیا۔
نجیب اللہ نے جج کیتھرین پولک فیلا کو بتایا کہ انہوں نے 2007 سے 2009 تک طالبان کو ہتھیار اور مالی امداد فراہم کی، یہ جانتے ہوئے کہ اسے ’افغانستان پر قابض امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے اور انہیں مارنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘
نجیب اللہ نے کہا کہ ’طالبان کو فراہم کی گئی امداد کے نتیجے میں امریکی فوجی مارے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے صوبہ وردک میں طالبان کمانڈر کے طور پر ان کا کردار بھی تھا۔ ’میرے ماتحت جنگجو خودکش بمباروں، خودکار ہتھیاروں، دیسی ساختہ بموں اور راکٹ سے چلنے والے دستی بموں کا استعمال کرتے ہوئے امریکی فوجیوں اور ان کے اتحادیوں کے خلاف حملوں کی تیاری کرتے تھے۔‘49 سالہ نجیب اللہ نے کہا کہ وہ ڈیوڈ روہدے اور ان کے ساتھیوں کو یرغمال بنانے میں بھی ملوث تھے تاکہ تاوان اور امریکی حکومت کے زیرِ حراست طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جا سکے۔نیویارک ٹائمز کے سابق رپورٹر اور افغان صحافی طاہر لودین کو اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ طالبان رہنما کا انٹرویو کرنے جا رہے تھے۔ دونوں افراد 10 نومبر 2008 کو اپنے اغوا کے سات ماہ بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کے زیر کنٹرول کمپاؤنڈ سے ڈرامائی طور پر فرار ہو گئے۔ڈیوڈ روہدےجو اب میں قومی سلامتی کے لیے سینیئر ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے ہیں، کارروائی میں شریک تھے۔نجیب اللہ کو 23 اکتوبر کو سزا کا سامنا کرنے کے لیے بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں کمرۂ عدالت سے باہر لے جایا گیا۔ نجیب اللہ اور استغاثہ کی طرف سے دستخط شدہ معاہدے کے تحت انہیں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔