وینیلوپ ہوپ ولکنز نامی بچی نے 2017 کے دوران طب کی دنیا میں نئی تاریخ رقم کی جب پیدائش کے وقت ان کا دل جسم کے باہر موجود تھا۔
وینیلوپ ہوپ ولکنز، جن کی عمر اب سات سال ہے، اپنے جسم سے باہر دل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی وینیلوپ ہوپ ولکنز نامی بچی نے 2017 کے دوران طب کی دنیا میں نئی تاریخ رقم کی جب پیدائش کے وقت ان کا دل جسم کے باہر موجود تھا۔
ماہرین کی جانب سے وینیلوپ کو ’اپنی نوعیت کا منفرد‘ کیس قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایکٹوپیا کورڈس نامی انتہائی نایاب بیماری کی وجہ سے ان کے دل کو دوبارہ سینے میں ڈالنے کے لیے تین آپریشن کیے گئے۔
لیسٹر کے گلین فیلڈ ہسپتال کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا جہاں بچی زندہ بچ گئی ہو۔
وینیلوپ اب سات سال کی ہونے والی ہیں اور انھوں نے اپنی پسلیوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنے دل کے اردگرد ایک حفاظتی پنجرے کی تعمیر نو کے لیے اپنی نوعیت کی پہلی بڑی سرجری کروائی ہے۔
گذشتہ بدھ کو لیسٹر رائل انفرمری میں واقع ایسٹ مڈلینڈز کنجینیٹل ہارٹ سینٹر میں آپریشن کے دوران بی بی سی کو تھیٹر تک خصوصی رسائی دی گئی تھی۔
انتباہ: اس کہانی میں سرجری کی تصویر ہے
22 نومبر 2017 کو تقریباً 50 عملے کی ایک ٹیم نے وینیلوپ کو دنیا میں لانے کے لیے کام کیا صبح کا وقت ہے اور ماہر طبی ماہرین کی ایک ٹیم بریفنگ کے لیے جمع ہوتی ہے تاکہ اس بے مثال سرجری کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
وینیلوپ کی چھاتی کی ہڈی نہیں ہے، جس کی وجہ سے اس کا دل صرف جلد کی پتلی پرت سے ڈھکا ہوا ہے۔
سرجنوں نے ان کی پسلیوں کو استعمال کرتے ہوئے ان کے سینے کے اندر ایک حفاظتی پنجرہ بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔
کنسلٹنٹ پیڈیاٹرک سرجن نتن پٹوردھن 22 نومبر کو وینیلوپ کی پیدائش کے وقت 50 رکنی میڈیکل ٹیم میں سے ایک تھے۔ اب وہ سرجری میں ایک بار پھر اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، جو اس سے پہلے کبھی اس طرح نہیں کیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر میں کہوں کہ میں گھبراتا نہیں ہوں، تو میں جھوٹ بولوں گا، لیکن اتنے سالوں سے اس پیشے میں رہنے کے بعد، آپ واقعی اس کے خواہاں ہیں کیونکہ آخر کار آپ کچھ ایسا کر رہے ہیں جو کسی کی زندگی کو تبدیل کر دے گا۔'
وہ یاد کرتے ہیں کہ جب وینیلوپ کی پیدائش ہوئی تھی تو ’سب کچھ نیا تھا‘ کیوںکہ ملک میں کسی نے بھی اس طرح کے معاملے سے کبھی نہیں نمٹا تھا۔
امریکہ میں مٹھی بھر بچے بھی اس حالت کا شکار تھے۔
ایکٹوپیا کورڈس ہرس دس لاکھ میں سے صرف چند کیسز کو متاثر کرتا ہے اور وینیلوپ کو زندہ رہنے کا 10 فیصد سے بھی کم امکان دیا گیا تھا لیکن انھوں نے ان رکاوٹوں کا مقابلہ کیا اور 14 ماہ ہسپتال میں رہنے کے بعد انھیں گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔
ایکٹوپیا کورڈیس کے زیادہ تر معاملات میں، دل سینے سے باہرہوتا ہے یا اسٹرنم، یا چھاتی کی ہڈی سے باہر نکل جاتا ہے۔اس کے بعد سے وینیلوپ کو اپنے دل کی حفاظت کے لیے اپنے سینے کے گرد بریس پہننا پڑا ہے۔
ان کی پیچیدہ طبی ضروریات ہیں، جن کے لیے دن کے 24گھنٹے ون ٹو ون دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ آٹسٹک اور بات نہیں کرتیں۔
نوٹنگھم کے علاقے کلفٹن میں رہنے والی 39 سالہ ماں ناؤمی فائنڈلے نے اپنی بیٹی کو ’خوش رہنے والی بچی' قرار دیا جو ’بہت سی خوشیاں لاتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے یہ دیکھ کر بہت فخر ہوتا ہے کہ وہ اتنا آگے تک آ گئی ہے۔‘
’یہ طاقت اور بہادری کا ایک حقیقی سفر ہے۔۔۔ وہ بہت بہادر ہے۔‘
آپریشن تھیٹر کے دروازے پر اپنی بیٹی کو الوداع کہنا مشکل ہے اور آنسو بہہ رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’بہت زیادہ اضطراب، بہت زیادہ پریشانی اور بہت سارے جذبات ہیں۔ میرے لیے، سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ اسے سونپنے کے بعد واپس نہ ملی تو۔‘
ناومی فائنڈلے اپنی بیٹی وینیلوپکے ساتھآپریشن تھیٹر میں منتظر ٹیم میں کنجینیٹل ہارٹ سینٹر، لیسٹر چلڈرن ہسپتال کے ماہرین اور لندن کے گریٹ اورمنڈ سٹریٹ ہسپتال کے کارڈیوتھوراسک سرجن شامل ہیں۔
کنسلٹنٹ کارڈیک سرجن، اکینا اومیجے نے وینیلوپ کی پیدائش کے صرف 50 منٹ بعد اس کا آپریشن کیا۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ سرجنوں کے درمیان بہت زیادہ ’غور و فکر‘ ہوا کیوںکہ یہ حالت ’بہت نایاب تھی۔‘
’یہ سب کے لیے دلچسپ تھا کیونکہ یہ کچھ ایسا تھا جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لہٰذا آپ نے نہ صرف برطانیہ میں بلکہ پوری دنیا میں اہم خبر بنائی۔‘

آپریشن کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے، وہ وینیلوپ کے سینے کے تھری ڈی سکین کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ کس طرح اس کا دل اس کی حفاظت کرنے والی جلد کی پتلی پرت سے منسلک ہے۔
انھوں نے اعتراف کیا کہ اسے الگ کرنا ’خطرناک ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ سینے میں داخل ہونے کی کوشش میں شریان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘
اب سات سال کی عمر میں، سرجنوں نے فیصلہ کیا کہ وینیلوپ اپنے دل کے اردگرد ایک مستقل ڈھانچہ بنانے کی سرجری کے لیے صحیح عمر تک پہنچ گئی ہیں۔
یہ تصویر سرجری سے پہلے وینیلوپ کا دل دکھاتی ہے وینیلوپ کو سب سے پہلے بائی پاس مشین پر رکھا گیا، جو عارضی طور پر دل اور پھیپھڑوں کے افعال کو سنبھالتی ہے۔
اس سے ان کے دل کو نکالنے کا موقع ملتا ہے اس 'بہت مشکل' طریقہ کارکی مدد سے دل کے ایک حصے دائیں وینٹریکولر اخراج کی نالی اور پھیپھڑوں کی شریان کو اس جلد سے الگ کیا جاتا ہے جہاں چپکا ہوا ہے۔
اس کے بعد دو طرفہ پسلیوں کی آسٹیوٹومی (توڑنے اور کاٹنے کا عمل) ہوتا ہے، جس میں وینیلوپ کی پسلیوں کو دونوں اطراف سے توڑنا شامل ہے تاکہ اس کے دل کے اردگرد حفاظتی پنجرہ تشکیل دیا جاسکے۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ ایکٹوپیا کورڈس کے مریض پر ایک ہی وقت میں تمام پروسیجرز کو انجام دینا اس ملک میں پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا۔
دو سرجن، اکینا اومیجے (بائیں) اور نتن پٹوردھن (دائیں) وینیلوپ کی پیدائش کے وقت تھے، گریٹ اورمنڈ سٹریٹ ہسپتال کے ناگراجن متھیالو نے آپریشن میں ان کا ساتھ دیاانتہائی پیچیدہ آپریشن نو گھنٹے سے زیادہ پر محیط تھا اور یہ ایک کامیاب آپریشن تھا جس پر سرجن خوش تھے۔
اومیجے کا کہنا ہے کہ ’یہ ہماری توقع سے کہیں زیادہ بہتر رہا۔‘
انھوں نے بتایا کہ آپریشن کے بعد انھوں نے وینیلوپ کے سینے کے ایکسرے کا معائنہ کیا اور اسے ’واقعی خوبصورت‘ قرار دیا۔
اومیجے نے وینیلوپ کو ’نایاب‘ قرار دیا اور وضاحت کی کہ سب کچھ اتنا اچھا ہونا کتنا اطمینان بخش تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے ہمیں سب سے زیادہ اطمینان اس وقت ملتا ہے جب آپ کو ماں کی جانب سے ٹیکسٹ میسج ملتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ ’شکریہ، آپ لوگ حیرت انگیز ہیں‘۔‘
’مجھے ذاتی طور پر لگتا ہے کہ میں نے صرف اپنا کام کیا ہے، لیکن اس سے کسی کے لیے کچھ بدلا ہے یہ بہت اطمینان بخش ہے۔‘
16 اپریل کو ہونے والی سرجری کے بعد وینیلوپ اب صحت مند ہو رہی ہیں وینیلوپ کو بچوں کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں لے جایا گیا جہاں وہ صحت یاب ہونے کے لیے ہسپتال میں کچھ وقت گزاریں گی۔ چند ہفتوں کے بعد، وہ اپنے حفاظتی سینے کے بریس کو اتارنے کے قابل ہو جائیں گی اور مستقبل میں کسی اور سرجری کی ضرورت نہیں ہوگی۔
ان کی والدہ نے این ایچ ایس کو ’حیرت انگیز‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ انھیں اپنے بڑے بھائیوں اور چھوٹی بہن کے پاس گھر لے جانے کے لیے بے چین ہیں۔
مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے، وہ امید کرتی ہیں کہ اس سرجری سے وینیلوپ کی زندگی میں بہتری آئے گی۔
اور ناومی کہتی ہیں کہ اس بار وہ آگے کے طویل سفر کے لیے تیار ہیں۔
’جب وینیلوپ پیدا ہوئی تو میں ڈر گئی تھی۔ یہ میرے لیے بہت خوفناک تھا، لیکن اس بار میں تیار ہوں۔‘