882 وفاقی قوانین میں سے 370 میں فوجداری دفعات شامل ہیں جن میں مجموعی طور پر 7305 کاموں اور غلطیوں کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
کتے کو مناسب چہل قدمی نہ کروانے پر جرمانہ بھی ہوث سکتا ہے اور جیل بھی کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو سڑک پر کسی جانور کو باندھنے، پتنگ اڑانے، سکول میں حاضری چھوڑنے یا دودھ پلانے کی صلاحیت نہ رکھنے والی ماں کو دودھ پلانے کی بوتل دینے کے مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جی ایسا انڈیا میں ہو سکتا ہے کیونکہ وہاں کے 882 وفاقی قوانین میں سے 370میں فوجداری دفعات شامل ہیں جن میں مجموعی طور پر 7305کاموں اور غلطیوں کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
ان میں مضحکہ خیز سے لے کر سنگین نوعیت کے جرائم تک شامل ہیں۔
جیسے کہ ملازمت چھوڑنے سے پہلے ایک ماہ کا نوٹس نہ دینا، اپنے کتے کو مناسب چہل قدمی نہ کروانا، غیر قانونی اسلحہ رکھنے، قتل اور جنسی حملے جیسے جرائم شامل ہیں۔
دہلی میں قائم تھنک ٹینک ودھی سینٹر فار لیگل پالیسی نے اسے ' انڈیا میں حد سے زیادہ جرائم کا بحران' قرار دیا ہے۔
تھنک ٹینک نے اپنی ایک نئی رپورٹ 'دی سٹیٹ آف دی سسٹم: انڈیا میں جرائم اور سزا کے پیمانے کو سمجھنا' میں ملک کا پہلا جامع ڈیٹا بیس تیار کیا ہے، جس میں 370وفاقی قوانین میں جرائم کی حد کا نقشہ بنایا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں انڈیا کی اس عادت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ وہ فوجداری قانون کے ذریعے ہر چیز کو حل کرتا ہے، یہاں تک کہ دنیاوی معاملات کو بھی۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے قوانین 'معمول، روزمرہ کے کاموں' کو جرم قرار دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ پر عوامی سڑک پر اپنی بکری کو باندھنے، لائسنس کے بغیر لیک ہونے والے نل کو ٹھیک کرنے یا پوچھے جانے پر عمارت کے مالک کا نام بتانے کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔
کچھ جرم تو بہت غیر واضح ہیں، جیسے والدین کا سکول میں حاضری کے حکم کو نظر انداز کرنا، پابندی لگنے کے بعد ڈرائیونگ لائسنس کے لیے درخواست دینا یا چڑیا گھر میں کچرا پھینکنا۔
بنیادی طور زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو کوئی نہ کوئی مجرمانہ سزاآپ کی طاق میں ہے۔
خطرے کا باعث بننے والی پتنگ بازی کرنا جرم ہے اپنےمویشی کو کسی کھیت یا سڑک پر گھومنے دیں اور آپ پر 10 روپے جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔
چڑیا گھر میں کسی جانور کو پریشان کریں یا کوڑا کرکٹ پھیکنیں؟ چھ ماہ قید یا دو ہزار روپے جرمانہ۔۔۔ اور اپنے کتے کو ورزش کروانے میں ناکام رہنے پر آپ کو 100 روپے جرمانہ اور تین مہینے تک جیل ہوسکتی ہے۔
حاملہ خواتین یا ماؤں کو بچوں کے دودھ کے متبادل یا دودھ پلانے کی بوتلیں دینے پر تین سال قید یا پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ (اس کا مقصد فارمولا فوڈ کمپنیوں کی طرف سے جارحانہ مارکیٹنگ کو روکنا تھا ، لیکن یہ قانون افراد پر بھی لاگو ہوتا ہے ، جو اسے متنازع بناتا ہے۔)
انڈیا میں 73فیصد جرائم میں ایک دن سے لے کر 20 سال تک قید کی سزا ہوتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 117قوانین کے تحت 250سے زائد جرائم میں دستاویزات جمع کرانے میں تاخیر کو سزا دی جاتی ہے جن میں دولت اور پراپرٹی ٹیکس ریٹرن سے لے کر گفٹ ڈیکلیریشن تک سب کچھ شامل ہے۔
80 قوانین کے تحت تقریبا 124 جرائم میں سرکاری افسر کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
یہاں تک کہ موت کی سزا بھی ختم نہیں ہے، نہ صرف قتل یا بغاوت کے لیے بلکہ تیل یا گیس کی پائپ لائن کو نقصان پہنچانے یا ڈیوٹی پر سوتے ہوئے پکڑے جانے والے سنتری کے لیے۔
مجموعی طور پر انڈیا میں 301جرائم قانونی طور پر آپ کی جان لے سکتے ہیں۔
مرکزی قوانین کے تحت 7305 جرائم میں سے تقریبا 80فیصد جرمانے کے ساتھ آتے ہیںجو دو روپے سے لے کرپانچ کروڑ روپے تک ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بہت سی دفعات شاذ و نادر ہی استعمال کی جاتی ہیں۔ انڈیا کا کرائم ریکارڈ بیورو تقریبا 50قوانین کو ٹریک کرتا ہے، حالانکہ 370میں مجرمانہ سزائیں ہیں۔
ودھی سینٹر فار لیگل پالیسی میں اس مطالعے کے شریک مصنف نوید محمود احمد نے مجھے بتایا، 'کتابوں میں اتنی تعداد موجود ہے کہ کسی بھی شخص کو کسی تکنیکی عدم تعمیل کی پاداش میں جیل بھیج دیا جائے۔ اس کا اصل استعمال کم ہے اور غلط استعمال کا امکان زیادہ ہے۔'
چڑیا گھر میں کچرا پھینکنا جرم ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجداری قانون کا حد سے زیادہ استعمال نہ صرف عام شہریوں کی روزمرہ زندگی میں خلل ڈالتا ہے بلکہ کاروباری سرگرمیوں کے لیے بھی اہم رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں کاروباری اداروں کو قواعد و ضوابط کی بھول بھلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن عدم تعمیل کے لیے فوجداری قانون کو ڈیفالٹ کے طور پر استعمال کرنا حد سے زیادہ، غیر متناسب اور اکثر غیر پیداواری ہے۔
رپورٹ میں جرم اور سزا میں کچھ واضح تضادات کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے۔
فسادات، غیر قانونی اجتماع کے ذریعہ طاقت کا استعمال یا تشدد پر دو سال تک قید کی سزا ہے تاہمسرکاری ریکارڈ کے لیے پیدائش یا موت کی غلط اطلاع دینے سے تین سال قید ہوسکتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عوامی سطح پر تشدد کو کاغذ پر جھوٹ بولنے کے مقابلے میں کم سزا ملتی ہے۔
اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ بہت مختلف نوعیت کے جرائم میں ایک ہی سزا دی جاتی ہے۔ جیسے بغیر لائسنس کے ہومیوپیتھی کی مشق کرنا، ریڈ لائٹ عبور کرنا، یا کسی کو مزدوری پر مجبور کرنا، یہ سب جرم ایک سال کی سزا کے مستحق ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روزمرہ کی زندگی اور کاروبار سے منسلک جرائم کی بڑی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ ریاست فرما برادری کو نافذ کرنے کے لیے افعال کو جرائم قرار دینے پر کتنا انحصار کرتی ہے۔
'یہ حد سے زیادہ انحصار نہ صرف شہریوں اور کاروباری اداروں کے لیے بلکہ ریاستی مشینری کے لیے بھی مہنگا ثابت ہوتا ہے۔'
انڈیا کی عدالتوں میں 3کروڑ 40لاکھ سے زائد فوجداری مقدمات زیر التوا ہیں جن میں سے 72فیصد ایک سال سے زائد عرصے سے التوا کا شکار ہیں۔
جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 131 فیصد ہے جبکہ عدالتوں اور پولیس فورسز کو عملے کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
انڈیا میں ہر ایک لاکھ افراد پر صرف 154 پولیس اہلکار تھےیہاں تک کہ لا اینڈ آرڈر مشینری بھی کم ہے۔ یکم جنوری 2023تک انڈیا میں ہر ایک لاکھ افراد پر صرف 154 پولیس اہلکار تھے جو منظور شدہ 195 سے کافی کم ہیں۔
ملک بھر میں 27 لاکھ 20 ہزارکی منظور شدہ تعداد کے مقابلے میں 581,000عہدے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'اس کے باوجود، ہم معمولی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے اس اضافی بوجھ والے نظام پر انحصار کرتے رہتے ہیں، جن میں معمولی جرمانے بھی شامل ہیں۔'
اس میں کہا گیا ہے کہ فوجداری قانون کو ان کاموں تک محدود کیا جانا چاہیے جو بنیادی معاشرتی اقدار جیسے عوامی تحفظ ، قومی سلامتی ، زندگی ، آزادی ، جائیداد اور معاشرتی ہم آہنگی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ وہ 100 سے زائد قانونی دفعات میں مجرمانہ سزاؤں کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ صرف قانونی صفائی نہیں ہے۔ یہ اس بات پر دوبارہ غور کرنے کا ایک موقع ہے کہ قانون لوگوں کے ساتھ کیسے برتاؤ کرتا ہے۔
کم خوف، زیادہ اعتماد. کم مشتبہ، زیادہ شہری۔