انڈیا کا 26 رفال جنگی طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا اسے پاکستان پر فضائی برتری دلائے گا؟

انڈیا نے فرانس سے 26 رفال فائٹر جیٹ خریدنے کا ایک معاہدہ کیا ہے۔ ان جنگی جہازوں کی مجموعی قیمت تقریباً 63 ہزارکروڑ روپے یعنی تقریباً آٹھ ارب ڈالر ہے۔
getty
Getty Images

انڈیا نے فرانس سے 26 رفال فائٹر جیٹ خریدنے کا ایک معاہدہ کیا ہے۔ ان جنگی جہازوں کی مجموعی قیمت تقریباً 63 ہزارکروڑ روپے یا تقریبآ آٹھ ارب ڈالر ہے۔

یہ جنگی جہاز انڈین بحریہ کے لیے خریدے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے انڈیا نے جو 36 رفال خریدے ہیں وہ فضائیہ کے لیے تھے اور انھیں ملک کے اہم فضائی اڈوں پررکھا گیا ہے۔

فرانس سے پیر کو جو نیا معاہدہ ہوا ہے اس کے تحت 26 میں سے 22 رفال سنگل سیٹر یعنی محض ایک نشست والے ہوں گے جو طیارہ بردار بحری جہازوں کے ڈیک سے کم جگہوں میں پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ باقی چار جہاز ٹو سیٹر یعنی دو نشستوں والے ہیں جنھیں تربیت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق یہ جہاز فوراً نہیں ملیں گے۔

ان کی ڈیلیوری تین برس بعد یعنی 2028-29 سے شروع ہو گی اور سنہ 2030 تک پوری ہو گی۔ یہ جہاز تمام جنگی ساز وسامان، ہتھیاروں، سیمولیٹر، سپیئر پارٹس وغیرہ سے مزین ہوں گے۔ اس معاہدے میں پائلٹوں کی ٹریننگ اور سازو وسامان کی فراہمی کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔

رفال جنگی طیارہ جوہری بم لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ جہاز 70 کلومیٹر دوری تک وار کرنے والے ایگزوسٹ اے ایم 39 بحری جہاز شکن مزائلوں کے علاوہ 300 کلو میٹر رینج والے فضا سے زمین پر وار کرنے والے ’سکلپ‘ اور 120 سے 150 کلومیٹر کی رینج والے فضا سے فضا میں وار کرنے والے میٹیور میزائلوں سے لیس ہو گا۔

دفاعی ماہر سنجیو سریواستو نے بی بی سی کے چندن کمار ججواڑے سے بات کرتے ہوئے کہا 'آج کے دور میں دنیا کے کئی ممالک ڈرون کی مدد سے بھی حملے کر رہے ہیں۔ لیکن لڑاکا طیارے اپنی درستگی کے ساتھ حملہ کرنے اور طویل فاصلے تک حملہ کرنے کی صلاحیت کے لحاظ سے اہم ہیں۔'

ہتھیاروں اور جنگی ساز وسامان کی خریداری سے متعلق اںڈیا کی ڈیفنس ایکویزیشن کونسل نے جولائی 2023 میں بحریہ کے لیے 26 رفال جہازوں کی خریداری کی تجویز کو منظور کیا تھا۔

رفال جنگی جہازوں کی خریداری کی حتمی منظوری اس مہینے کے اوائل میں وزیر اعظم کی سربراہی میں سلامتی سے متعلق کابینہ کی کمیٹی نے دی تھی۔

یہ مخص اتفاق ہے کہ یہ معاہدہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ اس معاہدے کی تاریخ پہلگام کے واقع سے پہلے اس مہینے کے اوائل میں ہی طے کر دی گئی تھی۔

دفاعی تجزیہ کارراہل بیدی نے بی بی سی کو بتایا کہ رفال کے ساتھ امریکی کمپنی بوئنگ کا ایف 18 اے طیارہ بھی خریداری کے لیے زیر غور تھا۔

یہ بنیادی طور پر بحریہ کے لیے بنایا گیا طیارہ ہے اور اسے اچھی صلاحیت کا حامل مانا جاتا ہے مگر اس کی خریداری کا مطلب یہ تھا کہ یہ انڈیا کے لیے ایک نیا طیارہ ہوتا اور اس کے لیے الگ سے سپورٹ سسٹم لاجسٹکس اورتربیت کا انتظام کرنا پڑتا۔

ان کے مطابق ’رفال پہلے سے انڈیا کے پاس ہے اور اسے چلانے لیے سارا انتظام پہلے سے موجود ہے۔‘

رفال فائٹر جہازوں کی خریداری کا معاہدہفرانس اور انڈیا کی حکومتوں کے درمیان ہوا ہے۔ اس پر انڈیا کی وزارت دفاع کے سیکریٹری راجیش کمار سنگھ نے انڈیا کی جانب سے دلی میں دستخط کیے ہیں۔ فرانس کے سفیر نے اپنی حکومت کی جانب سے معاہدے پر دستخط کیے۔ معاہدے کے وقت بحریہ کے وائس ایڈمرل کے سوامی ناتھن بھی موجود تھے۔

تجزیہ کار راہل بیدی نے بتایا کہ ’ان جہازوں کی خریداری ضروری ہو گئی تھی کیونکہ انڈین بحریہ کے پاس اس وقت روسی ساخت کے جومگ 29 ساخت کے طیارے ہیں جو آئندہ سالوں میں ناقابلِ استعمال ہوں گے۔‘

یہ رفال جہاز روس سے حاصل کیے گئے بحری جہاز آئی این ایس وکرمادتیہ اور اںڈیا میں بنائے گئے آئی این ایس وکرانت پر رکھے جائیں گے۔

ان کے مطابق ’مگ طیاروں میں کئی خامیاں ہیں۔ اس کا انجن کمزور ہے اور ڈیک پر اترتے وقت اس کے کئی پرزے خراب ہو جاتے ہیں۔‘

دفاعی تحقیق کے ادارے ڈی آر ڈی او کی تحت انڈیا کی ایروناٹکل ڈیویلپمنٹ ایجنسی کئی برس سے بحریہ کے لیے ٹوین (جڑواں) انجن والے جنگی جہاز تیار کر رہی ہے۔

اس سے پہلے انڈیا نے بالاکوٹ کی 'سرجیکل سٹرائک' کے بعد فرانس سے 36 رفال جنگی طیارے خریدے تھے۔
Getty Images
اس سے پہلے انڈیا نے بالاکوٹ کی 'سرجیکل سٹرائک' کے بعد فرانس سے 36 رفال جنگی طیارے خریدے تھے۔

ان طیاروں کے ٹیسٹ اور ٹرائل کے بعد بحریہ اپنے طیارہ بردار جہازوں کے لیے یہی انڈین جنگی جہاز خریدے گی۔ تب تک کے لیے رفال یہ جگہ پوری کرے گا۔

بیدی کہتے ہیں کہ ’ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سنہ 2036 میں تیار ہو کر نکلیں گے تب تک بحریہ کو یہ خالی جگہ رفال جیسے طیاروں سے بھرنی پڑے گی۔‘

اس سے پہلے انڈیا نے بالاکوٹ کی 'سرجیکل سٹرائک' کے بعد فرانس سے 36 رفال جنگی طیارے خریدے تھے۔

راہل بیدی کا کہنا ہے کہ یہ انڈین فضائیہ کے سب سے جدید جہاز ہیں اور انھیں پاکستان اور چین کی سرحدوں کےنزدیک اہم فضائی اڈوں پر رکھا گیا ہے۔

پہلگام حملے کے بعد فرانس کے وزیر اعظم ایمینوئل میخواں نے وزیر اعظم مودی کو کال کی اور سیاحوں کی ہلاکت پر تعزیت کی۔

کیا انڈیا کو اس لڑاکا طیارے سے پاکستان پر برتری حاصل ہو گی؟

اس سوال کے جواب میں سنجیو سریواستو کا کہنا ہے کہ 'انڈیا کے پاس اس وقت دو طیارہ بردار بحری جہاز ہیں، آئی این ایس وکرانت اور آئی این ایس وکرمادتیہ۔ جب کہ پاکستان کے پاس ایک بھی طیارہ بردار بحری جہاز نہیں ہے۔ انڈیا کے ذہن میں چین ہے۔ فضائیہ نے اس سے پہلے چین کو ذہن میں رکھتے ہوئے رفال طیارے تعینات کیے ہیں۔'

انڈیا کو اپنی سکیورٹی کے لیے کتنے لڑاکا طیاروں کی ضرورت ہے؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ آپ کے پاس جتنے زیادہ طیارے ہوں گے وہ اتنی ہی زیادہ جگہوں پر لڑ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس معاملے میں نمبر اہم ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کا کہنا ہے کہ 'رفال کی آمد سے انڈین بحریہ کو کافی طاقت ملے گی، لیکن اس کے لیے 26 طیارے کافی نہیں ہیں۔ ہندوستان کے پاس موجود دو طیارہ بردار جہازوں پر 60 سے 70 لڑاکا طیارے تعینات کیے جاسکتے ہیں۔'

راہل بیدی بتاتے ہیں: 'اس وقت چین کے پاس تین طیارہ بردار بحری جہاز ہیں اور دو مزید پر کام جاری ہے۔ امریکہ کے پاس 12-13 طیارہ بردار بحری جہاز ہیں اور روس کے پاس تقریباً پانچ یا چھ ہیں۔'

پاکستان کے ساتھ موجودہ کشیدہ صورتحال میں انڈیا کے لیے رفال معاہدہ کتنا اہم ہے؟ اس سوال پر راہل بیدی کا کہنا ہے کہ 'ایشیا کے اس خطے میں چین اور تھائی لینڈ کے علاوہ کسی بھی ملک کے پاس طیارہ بردار بحری جہاز نہیں ہے۔'

یعنی اس معاملے میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی صورتحال میں انڈیا کو رفال-ایم ڈیل سے فائدہ تو ہوگا لیکن سب سے اہم چیز اس کی فراہمی ہے جس میں کم از کم 36 مہینے لگیں گے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.