حج کی خواہش اور استطاعت کے باوجود ہر کسی کو یہ موقع نہیں مل پاتا کہ وہ اس اسلامی فریضے کو ادا کر سکے کیونکہ حج ایک سخت بین الاقوامی نظام کے تحت کیا جاتا ہے جسے ’کوٹہ سسٹم‘ کہتے ہیں۔

ہر سال حج کے موسم میں ایک ہی قسم کی صورت حال نظر آتی ہے: ہزاروں لوگ درخواستیں دیتے ہیں، جن میں سے چند کی درخواست قبول ہوتی ہے جبکہ بہت سے منتظر ہی رہ جاتے ہیں۔
حج کی خواہش اور استطاعت کے باوجود ہر کسی کو یہ موقع نہیں مل پاتا کہ وہ اس اسلامی فریضے کو ادا کر سکے، کیونکہ حج ایک سخت بین الاقوامی نظام کے تحت کیا جاتا ہے جسے ’کوٹہ سسٹم‘ کہتے ہیں۔
سعودی حکومت ہر ملک کے لیے حجاج کی ایک مقررہ تعداد کا تعین کرتی ہے اور یہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ساتھ مل کر ’کسی ملک کی آبادی میں فی ہزار مسلمانوں میں سے ایک حاجی‘ کے اصول کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
بہت سے ممالک میں اہل درخواست دہندگان کو منتخب کرنے کے لیے لاٹری یا قرعہ اندازی بھی کی جاتی ہے۔ لاٹری کبھی عمر تو کبھی وقت کی بنیاد پر کی جاتی ہے کہ کسی نے کتنے عرصے سے حج نہیں کیا اور مختلف ممالک اس کے لیے مختلف طریقہ کا استعمال کرتے ہیں۔
کوٹہ سسٹم سے قبل بے تحاشہ رش
کوٹہ سسٹم کو باضابطہ طور پر سنہ 1987 میں اپنایا گیا۔ یہ محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں تھا بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی بڑھتی آبادی اور اس کے نتیجے میں حج کے خواہشمندوں کی تعداد میں اضافے کے جواب میں ایک ضروری عمل تھا۔
اس کا مقصد واضح تھا کہ حد سے زیادہ رش سے بچا جائے اور بھگدڑ جیسے واقعات میں کچلنے کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ حج کے دورانیہ میں وہاں موجود انفراسٹرکچر کے اندر ہی اسے انجام دیا جا سکے۔
لیکن کوٹہ نظام کے نفاذ سے پہلے حج کا انتظام کیسے کیا جاتا تھا اور ایسا کیا ہوا جس نے حجاج کی تعداد مقرر کرنے کو ضروری بنا دیا؟
حج اور عمرے کے امور کے ماہر احمد الحلبی نے بی بی سی عربی کے ساتھ ایک انٹرویو میں وضاحت کی کہ پہلے ہر وہ شخص حج ادا کر سکتا تھا جو اس کا متحمل ہوتا تھا۔
الحلبی کہتے ہیں کہ ’پہلے ہر سال مکہ آنے والے عازمین کی تعداد کے لیے کوئی مقررہ تعداد طے نہیں تھی تاہم بڑھتی ہوئی تعداد اور مقدس رسومات کی ادائيگی کی محدود صلاحیت کی وجہ سے حجاج کی تعداد کو منظم کرنا ضروری ہو گيا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر ہم (تعداد کے تعین کے) فیصلے سے پہلے کے چند برسوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس وقت عازمین کی تعداد کو دس لاکھ تک محدود کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ منیٰ کا رقبہ آٹھ مربع کلومیٹر سے کم ہے جس کا صرف 61 فیصد حصہ یعنی پانچ مربع کلومیٹر سے کچھ کم استعمال ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منیٰ کے باقی علاقوں کا محل وقوع مشکل ہے اور حجاج کرام کو اس علاقے سے دور رہنے کے لیے کہا جاتا ہے۔‘
جب 1970 کی دہائی میں مقدس مقامات پر دباؤ بڑھنے لگا تو حکومت نے ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوششیں شروع کر دیں لیکن یہ سب اس کے بعد آنے والی تباہی کو روکنے کے لیے کافی نہیں تھا۔
دو جولائی سنہ 1990 کو دسویں ذی الحجہ کی صبح حج کی جدید تاریخ کی سب سے ہولناک آفات میں سے ایک کا مشاہدہ کیا گیا۔
مکہ کو منیٰ سے جوڑنے والی 550 میٹر لمبی اور پیدل چلنے والوں کے لیے بنائی گئی سرنگ ’المعیصم‘ میں خوفناک بھگدڑ مچ گئی۔
جب حجاج شیطان کو پتھر مارنے کی رسم ادا کرنے کے لیے جا رہے تھے تو سرنگ کے اوپر ایک پل پر لگی ایک (حفاظتی) رکاوٹ گر گئی جس کی وجہ سے متعدد زائرین گر گئے، باہر نکلنے کا راستہ بند ہو گیا اور ہزاروں لوگ اندر پھنس گئے۔
درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ ہی وینٹیلیشن کا نظام ناکام ہو گیا۔ اس طرح وہ سرنگ ایک جان لیوا جال میں تبدیل ہو گئی، جس کے نتیجے میں 1,426 زائرین ہلاک ہو گئے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ملائیشیا، انڈونیشیا اور پاکستان جیسے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے تھا۔

الحلبی کا خیال ہے کہ اس واقعے نے ہجوم کے انتظام میں خرابی کو بہت حد تک آشکار کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جمرات (شیطان کو پتھر مارنے) کے علاقے میں اکثر حادثات پیش آتے ہیں اور اس کی وجہ ان ممالک میں حج کے دفاتر کی جانب سے آگاہی کا فقدان ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’حجاج کا ایک گروپ جمرات کے پل کی طرف جانا چاہتا تھا کہ وہ حادثہ پیش آیا۔ اس کے بعد اس اہم مناسک حج کو ادا کرنے کے لیے لوگوں کو گروپ میں تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گيا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سعودی حکومت نے اس معاملے کو صرف تنظیمی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا بلکہ حجاج کرام کے مختلف مسالک کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف ممالک کے حج دفاتر اور حج حکام سے ملاقاتوں کے بعد اس کو اپنایا۔‘
حج کے انتظام میں سیاست کا عمل دخل
اس وقت سے کوٹہ سسٹم حج کے انتظام اور لاکھوں لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک لازمی حصہ بن گیا۔ اگرچہ کوٹے کے نظام کو نظریاتی طور پر مساوات کے سادہ سے اصول پر مبنی سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت کہیں زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ سیاست اور ہنگامی حالات حج کے انتظام میں اپنا عملدخل رکھتے ہیں۔
سنہ 2015 میں منیٰ میں رونما ہونے والے واقعے پر تہران اور ریاض کے درمیان اہم سفارتی کشیدگی رہی اور اس کے بعد والے سال یعنی 2016 میں ایران سے آنے والازائرین کا وفد پوری طرح سے غیر حاضر رہا۔
خیال رہے کہ 2015 میں جمرات کے قریب بھگدڑ میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں بڑی تعداد میں ایرانی بھی شامل تھے۔ ریاض اور تہران انتظامی امور پر کسی معاہدے تک نہ پہنچ سکے جس کی وجہسے 2016 کے حج سے ایرانی پوری طرح غیر حاضر رہے۔
سنہ 2017 کے موسم گرما میں حج سیزن کا آغاز خلیجی بحران اور سعودی عرب کے قطر کے ساتھ تعلقات منقطع ہونے کے درمیان ہوا۔ اگرچہ ریاض نے اعلان کیا کہ قطر کا کوٹہ محفوظ ہے لیکن قطر کے سرکاری مشن کی عدم موجودگی اور ان پر عائد سفری پابندیوں نے مؤثر طور پر قطری عازمین کے لیے حج کومشکل بنا دیا۔ اس کے نتیجے میں ان کی تعداد میں نمایاں کمی نظر آئی۔
اسی طرح سنہ 2020 اور 2021 میں عالمی وبائی بیماری کووڈ کی وجہ سے غیر معمولی صورتحال پیدا ہو گئی اور صدیوں میں پہلی بار ایسا ہوا کہ سعودی عرب سے باہر کے عازمین کو حج کی اجازت نہ مل سکی جبکہ مملکت کے اندر سے آنے والے عازمین کی ایک محدود تعداد کو ہی حج کی اجازت دی گئی۔
ان کے علاوہ مختلف ممالک کے اندرونی سیاسی بحران بھی حج کے انتظامات کو متاثر کرتے رہے ہیں۔
مثال کے طور پر ملک شام کی مثال دیکھ لیں۔ سنہ 2012 میں ریاض اور دمشق کے درمیان تعلقات منقطع ہونے کے بعد حج کا ادارہ حزب اختلاف کے شامی قومی اتحاد کو سونپ دیا گیا جس نے شام کے لوگوں کو حج کرانے کے مجاز ادارے کے متعلق سیاسی اور مذہبی تنازع کو جنم دیا۔
اسی طرح لیبیا میں دو حریف حکومتوں کے درمیان تقسیم نے منتخب عازمین حج کی فہرستوں کو یکجا کرنے اور ملک کے مشرق اور مغرب کے درمیان کوٹے کی تقسیم پر ابہام پیدا کیا۔
’ہر ملک کو اپنے حاجیوں کی فہرست ترتیب دینے کی مکمل آزادی‘
سعودی عرب جب ہر ملک کے عازمین حج کے کوٹے کا تعین کر لیتا ہے تو پھر اس پر عملدرآمد کی ذمہ داری ان ممالک کی حکومتوں اور مقامی حکام پر منتقل ہو جاتی ہے اور یہ ممالک اور مقامی حکام عازمین حج کو منتخب کرنے کا اپنا اپنا طریقہ اپناتے ہیں۔
احمد الحلبی بتاتے ہیں کہ ہر ملک کو اپنے حاجیوں کی فہرستیں ترتیب دینے کی مکمل آزادی ہے بشرطیکہ وہ سعودی عرب کے رہنما اصولوں پر عمل پیرا ہوں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہر ملک کا الگ نظام ہے اور وہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے آزاد ہیں کہ کون سے عازمین اس بار حج کے لیے اہل ہیں۔ انتخاب صرف اہلیت کو پورا کرنے والے عازمین کے درمیان ہوتا ہے۔‘
’کوئی بھی اس وقت تک حج ویزا حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ تمام مطلوبہ شرائط پر پورا نہ کرے۔ ان شرائط میں سب سے اہم ان کی حج دفاتر جیسے ریگولیٹری ادارے سے وابستگی اور مدینہ اور مکہ میں کسی مخصوص رہائش گاہ پر ان کا انتظام ہے۔‘
بہرحال اس کے بعد کس کو حج کرنے کا موقع دیا جائے گا یہ بات اہم ہو جاتی ہے کیونکہ درخواست دینے والوں کی تعداد سعودی حکومت کی جانب سے مختص کوٹے سے زیادہ ہوتی ہے۔ لہذا اس کے لیے زیادہ تر ممالک لاٹری سسٹم کا سہارا لیتے ہیں۔ اس نظام کو نافذ کرنے کے لیے جو طریقہ استعمال کیا جاتا ہے وہ ہر ملک میں مختلف ہوتا ہے لیکن مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ انصاف کی بنیاد عازمین کو موقع مل سکے۔
کچھ ممالک کی مثال دیتے ہوئے الحلبی بتاتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر ترکی کے عازمین کو ہی لیجیے۔ حج کرنے کے خواہشمند عازمین مذہبی امور کی صدارت سے منسلک ویب سائٹ پر رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ اگر ان کا نام قرعہ اندازی میں نکل آتا ہے تو وہ کاغذی کارروائی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ جن لوگوں کا قرعہ اندازی میں نام نہیں آتا انھیں اگلے سال کی لاٹری میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہی نظام کچھ عرصے سے مصر میں بھی رائج ہے۔‘
ان کے مطابق حج کرنے کی منظوری صرف مالی یا لاجسٹک کا معاملہ نہیں رہ جاتا بلکہ اس میں زیادہ آبادی والے ممالک کے لوگوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو کسی کے لیے یہ برسوں پر محیط تجربہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان سمیت مختلف مسلم ممالک میں کیا نظام رائج ہیں؟
بی بی سی کی منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے پاکستان کی وزارتِ مذہبی امور کے ترجمان عمر بٹ نے بتایا کہ عموماً ’پہلے آئیے پہلے پائیے‘ والا سسٹم بھی چلتا ہے اور اگر ضرورت سے زیادہ درخواستیں موصول ہوں تو قرعہ اندازی بھی کی جاتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ابھی بھی زیادہ درخواستیں موصول ہونے کی صورت میں قرعہ اندازی کا طریقہ رائج ہے۔
وزارتِ مذہبی امور کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس سال سرکاری کوٹے میں جتنی درخواستیں آئیں ان تمام عازمین کا انتخاب ہو گیا اور ہمیں کسی درخواست کو مسترد کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
انھوں نے بتایا کہ رواں سال سرکاری سکیم میں جتنے عازمین کا انتخاب ہوا وہ تعداد تقریباً 88 ہزار 500 ہے۔
وزارتِ کے ترجمان نے مزید بتایا کہ پرائیوٹ آپریٹرز کو دیے جانے والے کوٹے کی تعداد بھی رواس برس 88 ہزار 500 ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پرائیوٹ آپریٹرز اس سال ڈیڈ لائن پر پورا نہیں اتر سکے اس لیے سال وہ کوٹہ کچھ حد تک ضائع ہوا۔
مصر میں وزارت داخلہ حج قرعہ اندازی کی نگرانی کرتی ہے۔ قرعہ اندازی کےموقع پر سرکاری اہلکار اور عوام دونوں موجود ہوتے ہیں تاکہ اس عمل کی شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
مصر کے لوگوں کے لیے شرائط میں درخواست دہندگان کی عمر کم از کم 25 سال ہونی چاہیے، اس نے پہلے حج نہ کیا ہو اور اپنی جسمانی تندرستی کو ثابت کرنے والے میڈیکل ریکارڈ فراہم کرنا شامل ہیں۔
مراکش میں اوقاف اور اسلامی امور کی وزارت اس عمل کی نگرانی کرتی ہے۔ ان کے ہاں آن لائن رجسٹریشن سال بھر کھلی رہتی ہے اور ان لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے جنھوں نے پچھلے دس سال میں حج نہیں کیا۔
عراق میں حج اور عمرہ کی سپریم کمیشن تمام صوبوں پر مشتمل الیکٹرانک لاٹری کی نگرانی کرتا ہے۔ ان درخواست دہندگان کو ترجیح دی جاتی ہے جنھوں نے پہلے حج نہ کیا ہو اور جو بزرگ یا عمر رسیدہ ہوں۔مرکزی سطح پر قرعہ اندازی کی جاتی ہے اور ان کے نتائج کا اعلان سرکاری ویب سائٹ پر کیا جاتا ہے اور اسے میڈیا کی طرف سے وسیع پیمانے پر کور کیا جاتا ہے۔
لبنان میں حج اور عمرہ کے امور کی اتھارٹی دو اہم معیار کے تحت قرعہ اندازی کا اہتمام کرتی ہے۔ اس میں درخواست دہندگان کی عمر دیکھی جاتی ہے اور یہ دیکھا جاتا کہ اس نے کتنے برسوں سے حج نہیں کیا۔ ان لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے جنھوں نے گذشتہ بیس سال کے دوران حج نہیں کیا۔ اگر مختص تعداد پوری نہیں ہوتی تو پھر ان لوگوں کے لیے قرعہ اندازی کی جاتی ہے جنھوں نے گذشتہ انیس، پھر اٹھارہ اور سترہ سال میں حج نہیں کیا اور یہ اسی طرح جاری رہتی ہے۔
انڈونیشیا سے سب سے زیادہ لوگ حج کو پہنچتے ہیں۔ حج کے خواہشمندوں کی زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سےوہاں انتظار 15 سال یا اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔
انڈونیشیا کے ایک سرکاری اہلکار نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صرف جنوبی سولاویسی صوبے میں انتظار کی مدت 43 سال تک جا سکتی ہے۔

جلد رجسٹریشن اور الیکٹرانک نگرانی کے باوجود فہرستیں لمبی ہوتی رہتی ہیں اور اس کی وجہ سے وہاں کے لاکھوں مسلمانوں کے لیے حج کی ادائیگی ایک ایسا خواب ہے جو التوا کا شکار رہتا ہے۔
الحلبی حج اور مذہبی سیاحت کے دفاتر کے کردار کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’ان دفاتر کا کوٹہ یا قرعہ اندازی کے عمل سے کوئی تعلق نہیں۔ عام طور پر مختلف ممالک میں حج کی سرکاری ایجنسیاں قرعہ اندازی کرتی ہیں اور جس کا نام فہرست میں آتا ہے وہ حج دفتر کے ساتھ اپنے آنے جانے اور رہنے سہنے کے معاملات طے کرتا ہے۔ ان پر عازمین حج کو مناسک حج کی ادائیگی، ان کی تربیت اور مقدس رسومات سے متعارف کروانے کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔‘
مقدس مقامات کے بنیادی ڈھانچے میں توسیع جاری
ان چیلنجز کے درمیان سعودی عرب حکومت نے مسجد الحرام اور مقدس مقامات کے بنیادی ڈھانچے میں توسیع جاری رکھی ہے۔
سعودی حکومت کے تحت تیسرا توسیعی کام جو شاہ عبداللہ کے دور میں سنہ 2011 میں شروع ہوا تھا، شاہ سلمان کے دور میں اس کی تکمیل ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی مسجد الحرام کی گنجائش بڑھ کر 18 لاکھ سے زیادہ ہو گئی۔
الحلبی نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’سنہ 2025 میں زائرین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ سعودی ویژن کے تحت سنہ 2030 تک یہ تین کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ سالانہ تعداد میں یہ اضافہ توسیعی منصوبوں کی بنیاد پر ہو گا، جو ابھی تک مکمل نہیں ہوئے اور متعلقہ حکام اس وقت مقدس مقامات میں لوگوں کی گنجائش بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘