میٹا نے اے آئی ڈویلپرز کے لیے نیا "لاما API" ماڈل متعارف کرا دیا

image

فیس بک کی مالک کمپنی میٹا نے ایک نیا "لاما اے پی آئی” ماڈل متعارف کرایا ہے تاکہ کمپنیاں اور ڈویلپرز آسانی سے اپنے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پروڈکٹس بنا سکیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ اعلان میٹا نے اپنی پہلی اے آئی ڈویلپر کانفرنس میں کیا۔ میٹا چاہتی ہے کہ اے آئی ڈویلپرز اس کے لاما ماڈل کو استعمال کریں، اس لیے اس نے ایک آسان اے پی آئی متعارف کیا ہے۔

میٹا کا مقصد ہے کہ اس کے صارفین اے پی آئی کی مدد سے کم وقت اور کم خرچ میں اے آئی پروڈکٹس بنا سکیں، میٹا کا ماننا ہے کہ ’لاما اے پی آئی‘ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی دنیا میں مقابلے کے رجحانات اور نئے ماڈلز کی ترقی کو فروغ دے گی۔

لاما اے پی آئی کیا ہے؟

لاما ایک آرٹیفیشل انٹیلی جینس ماڈل ہے جو میٹا نے تیار کیا ہے، میٹا نے اس ماڈل کو ایک اے پی آئی (ایپلی کیشن پروگرامنگ انٹرفیس) کے ذریعے فراہم کیا ہے تاکہ سافٹ ویئر ڈویلپر صرف ایک لائن کوڈ سے اس ٹیکنالوجی کو اپنے ایپس یا سسٹمز میں شامل کرسکیں۔

میٹا کا مقصد ہے کہ زیادہ سے زیادہ کمپنیاں اور ڈویلپرز اس کے اے آئی ماڈلز کو استعمال کریں تاکہ وہ گوگل، اوپن اے آئی اور چین کی ڈیپ سیک جیسی کمپنیوں سے مقابلہ کرسکے۔

اس حوالے سے میٹا کے چیف پروڈکٹ آفیسر کرس کاکس کا کہنا ہے کہ اب آپ صرف ایک لائن کوڈ سے لاما کو استعمال کر سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق لاما اے پی آئی کے نئے ماڈل کی مدد سے کوئی بھی ڈویلپر پہلے سے موجود اے آئی ٹیکنالوجی کو اپنے سسٹم میں شامل کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوپن اے آئی کی آمدنی کا بڑا ذریعہ اس کی اے پی آئی ہے۔

میٹا ترجمان نے بتایا کہ لاما اے پی آئی ابھی محدود صارفین کے لیے دستیاب ہے اور اسے جلد ہی تمام صارفین کے لیے پیش کیا جائے گا، تاہم کمپنی کی جانب سے اس کی قیمت کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں بتایا گیا۔

اے آئی اسسٹنٹ ایپ متعارف:

علاوہ ازیں میٹا نے ایک نیا اے آئی اسسٹنٹ ایپ بھی متعارف کیا ہے۔ وہ اس سال کی دوسری سہ ماہی میں اپنے آرٹیفیشل انٹیلی جینس چیٹ بوٹ کے لیے ایک پیڈ سبسکرپشن (معاوضہ سروس) بھی ٹیسٹ کرے گی۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.