بی بی سی ویریفائی نے ایک ایسے شخص کا سراغ لگایا ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے تارکین وطن کو اس کشتی پر بٹھایا جو دو ہفتے سمندر میں گم رہی اور اس پُرخطر سفر کے دوران درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔ فادی گجر جیسے سمگلروں کا کاروبار لوگوں کے یورپ جانے کے خواب پر چلتا ہے۔
بی بی سی کے اس پرومو پکچر میں فادی گجر اور وہ کشتی دکھائی گئی ہے جو مغربی افریقہ کے ساحل کے قریب سمندر میں گم ہو گئی تھیرواں برس جنوری میں شمالی افریقہ کے ساحل کے قریب تارکین وطن کی ایک کشتی کو 14 دن سمندر میں گم رہنے کے بعد بچایا گیا۔ مگر اس سفر کے دوران تقریباً 50 افراد ہلاک ہو گئے۔
انسانی سمگلروں نے کئی اشخاص سے جھوٹ بولا تھا کہ وہ انھیں یورپ تک محفوظ اور قانونی راستے سے پہنچائیں گے۔
بی بی سی ویریفائی نے ان سمگلروں میں سے ایک خاور حسن عرف ’فادی گجر‘ کا سراغ لگایا ہے اور تین براعظموں میں ان کی سرگرمیوں کو دستاویزی شکل دی ہے۔

ایک ویڈیو میں پیچھے پنجابی میوزک چل رہا ہے اور اس میں تین آدمی موریطانیہ کے دارالحکومت نواکشوط کے ایک ساحلی ریستوران میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایک، ایک کر کے وہ کیمرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں اور پھر آرام سے باتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
تینوں واضح طور پر دوست ہیں۔ ان میں سے دو، صفیان علی اور عاطف شہزاد، پاکستان کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کزن ہیں۔
لیکن تیسرا شخص فادی گجر، جو ان کی گفتگو میں سب سے نمایاں ہے، دراصل انسانی سمگلر ہے۔
یہ ویڈیو فادی گجر کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی۔ یہ بی بی سی ویریفائی کے تجزیہ کردہ 450 سے زائد کلپس میں سے ایک ہے، جو ان کی سرگرمیوں اور دیگر افراد کے ساتھ قریبی تعلقات کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔
اس ویڈیو کے آن لائن آنے کے ایک ماہ کے اندر ہی صفیان علی اور عاطف شہزاد یورپ کے محفوظ سفر کے وعدے پر کشتی میں سوار ہوئے جہاں انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
دریں اثنا، فادی گجر فرار ہوگئے اور اب وہ پاکستان کی فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو مطلوب ہیں۔
جب بی بی سی ویریفائی نے زندہ بچ جانے والوں سے حاصل کردہ فون نمبر پر فادی گجر سے رابطہ کیا، تو انھوں نے متعدد وائس نوٹس میں بار بار کہا کہ ان کا نام اس سانحے کے سلسلے میں ’غلط استعمال‘ کیا گیا ہے اور وہ سب کچھ ’اللہ کے حوالے‘ کر چکے ہیں۔
فادی گجر: خانہ بدوش انسانی سمگلر
فادی گجر کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے قصبے جوڑا سے ہے۔ ان کی عمر تقریباً 30 سال ہے اور ان کا اصل نام خاور حسن ہے۔ لیکن وہ ’بشی گجر‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔
بی بی سی نے پہلے جن پاکستانی سمگلروں پر رپورٹ کیا وہ عام طور پر فخر سے یورپ جانے کے غیر قانونی راستے آن لائن دکھاتے ہیں۔
لیکن فادی گجر محتاط ہیں۔ ان کی آن لائن موجودگی صرف ان کی سیاحتی ویڈیوز تک محدود ہے اور بی بی سی ویریفائی کے مطابق تقریباً تمام گاہک جوڑا کے آس پاس کے ہی لوگ ہیں۔
لگتا ہے کہ ان کی سمگلنگ کی سروسز کی تشہیر زیادہ تر زبانی ہوتی ہے۔
فادی گجر موریطانیہ میں ساحل سمندر پر واقع ایک کیفے میںفادی گجر کی فیس بک پر موجودہ لوکیشن استنبول ہے۔ ٹک ٹاک پر جولائی 2022 سے پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں اسے استنبول کے مختلف مقامات پر دکھایا گیا ہے جیسے تاریخی آیا صوفیہ کے باہر اور ایک پاکستانی سپر مارکیٹ کے قریب۔
ایک اور لوکیشن مغربی افریقہ کے بحر اوقیانوس کے ساحل پر واقع موریطانیہ ہے جہاں سے اس کا غیر قانونی کاروبار چلتا ہے اور وہیں سے مہاجرین کی کشتی نے اپنا خطرناک سفر شروع کیا تھا۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فارمائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق 2023 سے موریطانیہ انسانی سمگلروں کا اہم مرکز بن چکا ہے۔ اس کی وجہ دوسرے راستوں پر پابندیاں ہیں۔
یہ راستہ بہت خطرناک ہے۔ آئی او ایم کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس 170 افراد (جن میں 14 بچے بھی شامل ہیں) اسی راستے ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔

بہت سے پاکستانی یورپ میں بہتر روزگار کی تلاش میں خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یورپ میں پہلے سے مقیم تارکین وطن وہاں کی زندگی کو بہت شاندار بنا کر پیش کرتے ہیں اور پھر فادی گجر جیسے سمگلر جن کا کاروبار انھی خوابوں پر چلتا ہے اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہ تارکین وطن یورپ پہنچنے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ وہ یا تو اپنے خاندان کی ساری جمع پونجی لگا دیتے ہیں یا اپنا سب کچھ بیچ کر سفر پر نکلتے ہیں۔ جن بچ جانے والوں سے بی بی سی نے بات کی ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے فادی گجر کو اوسطاً 13,000 ڈالر ادا کیے۔
پاکستان سے موریطانیہ کے لیے کوئی براہِ راست پرواز نہیں اس لیے کچھ لوگ ایتھوپیا یا مشرق وسطیٰ کے ممالک سے آتے ہیں۔ تقریباً سبھی پہلے سینیگال پہنچتے ہیں اور پھر سڑک یا سینٹ لوئس کے قریب سینگال دریا کے ذریعے چھوٹی کشتیوں میں موریطانیہ داخل ہوتے ہیں۔
بی بی سی ویریفائی کو ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق فادی گجر کا سفری ریکارڈ بھی اسی راستے کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ 2024 میں دو مرتبہ سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار کے ہوائی اڈے میں داخل ہوا۔
کئی ویڈیوز بھی اسے اکتوبر 2024 سے موریطانیہ کے دارالحکومت نواکشوط میں دکھاتی ہیں ۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ اپلوڈ کی تاریخ ویڈیو بننے کے وقت سے مختلف ہو۔
صوفیان علی اورعاطف شہزاد کی جانب سے ٹک ٹاک پر پوسٹ کی گئی مزید ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ فادی گجر کم از کم اگست 2024 سے موریطانیہ میں موجود تھا۔ تینوں کو نواکشوط کی ریت جیسے رنگ کی عمارتوں کی چھتوں پر اور شہر کے ریستورانوں میں دکھایا گیا ۔ ایسی عیش و عشرت عام تارکین وطن کی پہنچ سے باہر تھی۔
فادی گجر، صفیان علی اور عاطف شہزاد قریبی دوست تھے ۔ سوشل میڈیا پر ظاہر ہونےوالی تصاویر میں انھیں موریطانیہ میں اکٹھا دیکھا جا سکتا ہےان ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ہی گاؤں سے تعلق رکھنے والے صوفیان علی، عاطف شہزاد اور فادی گجر ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ عاطف شہزاد اور صوفیان کے چچا احسن شہزاد بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ تینوں دوست تھے۔
وعدہ خلافی
ایک زندہ بچ جانے والے شخص عزیر بٹ نے بتایا کہ فادی گجر نے اس سے جھوٹا وعدہ کیا کہ وہ اسے محفوظ اور قانونی راستے یورپ بھیجے گا۔ عزیر بٹ نے بی بی سی ویریفائی کو ایک بینک اکاؤنٹ میں بھیجی گئی رقم کا ثبوت بھی دیا جو گجر کے اصل نام خاور حسن کے نام پر تھا۔
لیکن جب عزیر موریطانیہ پہنچا تو فادی گجر اپنی بات سے پھر گیا۔
عزیر نے بتایا کہ فادی گجر نے کہا کہ یہاں سے ہوائی جہاز سے جانا ممکن نہیں۔ ’میں تمھیں ایک بڑے بحری جہاز سے بھیجوں گا۔ براہ کرم تعاون کرو، تمھیں ویزا نہیں ملے گا۔‘
آخرکار عزیر کو مجبوراً اس پر راضی ہونا پڑا۔
صوفیان علی، عاطف شہزاد اور عزیر کے علاوہ بی بی سی ویریفائی نے دو اور تارکین وطن کی شناخت کی جنہوں نے فادی گجر کو یورپ کے سفر کے لیے ادائیگی کی۔
ان کا کہنا ہے کہ نواکشوط پہنچنے کے بعد کہ انھیں ’محفوظ گھروں‘ میں رکھا گیا۔ یہ ایسے چھپے ہوئے گھروں کو کہا جاتا ہے جو تنگ گلیوں میں ہوتے ہیں اور جہاں سمگلر غیر قانونی طور پر تارکین وطن کو رکھتے ہیں۔
ایک شخص، جس نے کسی اور ایجنٹ کے ذریعے سفر کیا اس نے بھی بتایا کہ وہ کچھ وقت فادی گجر کے ہی ’محفوظ گھروں‘ میں ٹھہرا۔
بی بی سی ویریفائی نے ان میں سے ایک گھر کی لوکیشن کی تصدیق نواکشوط کی بندرگاہ کے قریب ایک علاقے سے کی جہاں زندہ بچ جانے والوں کے مطابق فادی گجر کبھی کبھار آیا کرتا تھا۔
کشتی کا سفر
زندہ بچ جانے والے افراد نے بی بی بی سی ویریفائی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 2 جنوری کی صبح سویرے نواکشوط سے ایک چھوٹی ماہی گیری کی کشتی میں روانہ ہوئے۔ کشتی میں سوار زیادہ تر افراد نے پاکستان میں اپنے آبائی علاقوں سے ہی سمگلروں کو یورپ جانے کے لیے ادائیگی کی تھی۔
موریطانیہ سے روانگی کے وقت کشتی کی تصاویر لیکن تین دن کا سفر دو ہفتے کے خونی سفر میں بدل کیا۔ عزیر بٹ نے بتایا کہ پہلے دن سے ہی مسافر مسلسل کشتی سے پانی نکال رہے تھے۔
ایک اور شخص، بلاول اقبال نے سفر کی یاد کرتے ہوئے بتایا کہ تھوڑی ہی دیر میں لوگ سمندر کا پانی پینے لگے اور اسے پینے کے بعد ان کی حالت غیر ہونے لگی۔
زندہ بچ جانے والوں کے مطابق کشتی پر موجود عملہ جو کہ مغربی افریقی افراد تھے اور سمگلروں نے انھیں اجرت پر رکھا ہوا تھا، وہ پاکستانی مسافروں کو کھانے اور پانی سے محروم رکھتے اور روزانہ ان پر تشدد کرتے تھے۔
اقبال نے بی بی سی ویریفائی کو بتایا ’میں نے ان کی پانی کی ایک بوتل لینے کی کوشش کی تو انھوں نے رسی سے میرے سر پر مارا جس سے میں پیچھے گر گیا۔ پھر انھوں نے میرے انگوٹھوں پر ہتھوڑے سے ضربیں لگائیں۔ آج بھی وہ زخم میرے ہاتھوں پر ہیں۔‘
سفیان علی اور عاطف شہزاد عملے کے ہاتھوں مارے گئے۔ ان کے چچا کے مطابق یہ تفصیلات انھیں زندہ بچ جانے والوں نے بتائیں۔ کئی دوسرے لوگ بھوک، پیاس اور ہائپوتھرمیا سے جان کی بازی ہار گئے۔
جو لوگ زندہ بچے تھے بشمول عملے کے افراد سب نے امید چھوڑ دی تھی جب تک بڑی ماہی گیری کی کشتی نظر نہیں آئی۔ عزیر بٹ نے سمندر میں چھلانگ لگائی اور مدد کے لیے تیر کر اس کشتی تک پہنچا۔
کوسٹ گارڈ نے اس بڑی کشتی کو حکم دیا کہ وہ مہاجرین کی کشتی کو 60 میل دور واقع الداخلا بندرگاہ تک لے جائے۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق کشتی سے 15 لاشیں برآمد ہوئیں جبکہ 35 افراد سمندر میں لاپتہ ہیں اور مردہ تصور کیے جا رہے ہیں۔

پاکستانی حکام نے فادی گجر کو ان دس سمگلروں میں شامل کیا ہے جو اس سانحے میں ملوث تھے۔ ان میں سے کچھ گرفتار ہو چکے ہیں، لیکن گجر تاحال گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔
بی بی سی ویریفائی نے ان کی حالیہ ٹک ٹاک ویڈیوز کی جغرافیائی لوکیشن کا پتا لگایا ہے جو آذربائیجان کے دارالحکومت باکو سے اپلوڈ کی گئی تھیں۔ یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ فادی گجر اب بھی باکو میں موجود ہیں یا نہیں۔
جب سے کشتی کے بچانے کی خبر منظرِ عام پر آئی ہے، پاکستان میں پولیس نے گجر کی والدہ اور ایک بھائی کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ فادی گجر کی ایما پر یورپ جانے کے خواہشمند افراد سے پیسے اکٹھے کر رہے تھے۔
بی بی سی ویریفائی نے پنجاب میں دائر چھ ایف آئی آرز بھی دیکھی ہیں، جو ان افراد کے خاندانوں نے درج کروائیں جنھوں نے جنوری کے اس کشتی کے سفر میں حصہ لیا تھا۔
ان ایف آئی آرز کے مطابق، گجر نے اس سانحے کے بدلے میں کل 75,000 ڈالر وصول کیے تھے۔ ان میں سے تین افراد نے پوری رقم ادا کی جبکہ باقی تین نے صرف ایڈوانس دیا تھا۔
بی بی سی کا خیال ہے کہ فادی گجر جنوری کے اس حادثے کے بعد بھی لوگوں کو یورپ بھیجنے کے انتظام کر رہے ہیں۔
مارچ میں جب بی بی سی کے ایک خفیہ رپورٹر نے بچ جانے والوں سے حاصل کیے گئے نمبر کے ذریعے گجر سے رابطہ کیا، تو انھوں نے کہا کہ وہ ’کسی کو جانتے ہیں‘ جو سفر کا انتظام کر سکتا ہے۔ لیکن انھوں نے خود کو براہِ راست شامل نہیں کیا۔
اضافی رپورٹنگ: جاوید سومرو، دیلے یالچِن اور جوشوا چیتھم۔