مودی حکومت کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پہلگام حملے کے سبب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور انڈیا میں سکیورٹی امور پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
انڈیا میں پسماندہ ذات کے لوگوں کی آبادی 60 فیصد سے زیادہ ہے اور انتخابات میں ان کا بڑا کردار ہوتا ہےانڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ آئندہ مردم شماری میں لوگوں کی ذات سے متعلق تفصیلات کا اندارج بھی کیا جائے گا۔
انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے اسے ’تاریخی فیصلہ‘ قرار دیا جبکہ اپوزیشن نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اسے ایک مقررہ مدت کے اندر مکمل کیا جائے۔
انگریز دورِ حکومت میں ایک بار مردم شماری میں ذاتوں کا اندراج کیا گیا تھا تاہم آزاد انڈیا میں کبھی ایسا نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی ایک طویل عرصے سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ آئندہ مردم شماری میں ذات سے متلعق تفصیلات بھی شامل کی جائیں۔
انڈیا میں مردم شماری ہر دس برس بعد کی جاتی ہے لیکن کووڈ کی وبائی صورتحال کے سبب 2021 میں یہ مردم شماری نہیں ہو سکی تھی۔
اب مردم شماری بہت جلد شروع ہونے والی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اسے سنہ 2026 تک مکمل کر لیا جائے گا۔ اسی مردم شماری میں اس بار پہلی مرتبہ پوری آبادی کی ذاتوں کا بھی اندراج کیا جائے گا۔
ماضی میں مودی حکومت کا یہ کہنا تھا کہ کانگریس ملک کو ذاتوں میں بانٹنا چاہتی ہے لیکن پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ حکومت کا مؤقف بدل گیا؟
بی جے پی کو ذات پات کی تفصیلات جاننے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
مودی حکومت کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پہلگام حملے کے سبب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور انڈیا میں سکیورٹی امور پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
راہل گاندھی نے کئی برس سے پسماندہ ذاتوں کی اقتصادی اور تعلمیی حالت کے بارے میں جاننے کے لیے مردم شماری میں ذات سے متعلق تفصیلات شامل کرنے کی مہم چلا رکھی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ مودی حکومت کو یہ لگا کہ ملک کے اس اہم مطالبے پر راہل کو کریڈٹ ملنے سے روکنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ مردم شماری میں ذات سے متعلق تفصیلات شامل کرنے کے بارے میں اعلان کر دیا جائے جس سے اس سے ہندوؤوں کو متحد کرنے کا بھی راستہ ہموار ہو گا۔
انڈیا میں پسماندہ ذات کے لوگوں کی آبادی 60 فیصد سے زیادہ ہے اور انتخابات میں ان کا بڑا کردار ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ریاست بہار میں آئندہ چند ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ شمال کی واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی ابھی تک اپنے بل پر اقتدار میں نہیں آ سکی۔ وہاں اس نے ایک پسماندہ غلبے والی پارٹی کے ساتھ حکومت بنا رکھی ہے۔
یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ذاتوں کے اندراج کے اعلان سے شاید مودی کی جماعت انتخابی فائدے کی امید کر رہی ہے۔
کانگریس رہنما راہل گاندھی ایک طویل عرصے سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ آئندہ مردم شماری میں ذات سے متلعق تفصیلات بھی شامل کی جائیںذات کی تفیصلات کا اندراج ضروری کیوں؟
ذات کی بنیاد پر انڈیا کی آبادی تین وسیع گروپوں پر محیط ہے: اعلیٰ ذاتیں، پسماندہ ذاتیں اور دلت و قبائل۔
ریاست بہار نے سنہ 2022 میں ذاتوں سے متعلق ایک وسیع سروے کیا تھا۔ اس سروے سے پتہ چلا تھا کہ ریاست میں اعلیٰ ذات کے لوگوں کی تعداد صرف ساڑھے 15 فیصد جبکہ پسماندہ ذاتوں کی آبادی تقریباً 63 فیصد ہے۔
سروے کے مطابق دلت اور قبائل 21 فیصد ہیں اور تھوڑے بہت فرق کے ساتھ پورے ملک میں ذاتوں کے تناسب کا اوسط کم و بیش یہی ہے۔
تاہم ملک کی آبادی میں تقریباً 60 فیصد کے ساتھ آبادی کا سب سے بڑا گروپ ہونے کے باوجود پسماندہ ذاتیں ملک کے وسائل کی تقسیم میں محرومی کا شکار رہی ہیں۔
تعلیم، صحت، ملازمتوں، کاروبار، نمائندگی، غرض زندگی کے ہر شعبے میں یہ ذاتیں پسماندگی کا شکار ہیں۔ ملک کے وسائل پر 15 فیصد اعلیٰ ذات کے لوگوں کا غلبہ ہے۔
اپوزیشن جماعتیں یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ مردم شماری میں صرف ذاتوں کا اندراج نہ کیا جائے بلکہ جمعے کو کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ایک قرارداد میں حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ اس میں ذات کے ساتھ ہر شخص کی تعلیمی، اقتصادی، سیاسی اور سماجی حالت بھی درج کی جائے۔
کانگریس نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ملک میں ریزرویشن کی 50 فیصد کی حد کو آبادی کے تناسب سے بڑھایا جائے اور ریزرویشن کی سہولیات پرائیوٹ یونیورسٹیز میں بھی نافذ کی جائیں۔
سیاسی پالیسی ساز پرشانت کشور کہتے ہیں کہ ’مردم شماری میں ذات سے متعلق تفصیلات کا اندارج صحیح قدم ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مؤثر منصوبہ بندی اور پالیسی سازی تب ہی ممکن ہے جب لوگوں کے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سے زیادہ معلومات ہوں لیکن اگر بہار کی طرح یہ تفصیلات دستیاب بھی ہوں اور ان کے مطابق مطلوبہ اقدامات بھی نہ کیے جائیں تو ایسے سروے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘
دلچسپ پہلو یہ ہے ہندوؤں کی طرح انڈیا میں مسلمان بھی پوری طرح ذاتوں میں منقسم ہیں۔ انگریزوں کے زمانے کے ایک سروے کے مطابق مسلمانوں میں 81 فیصد پسماندہ ذاتوں کی اور 19 فیصد اعلیٰ ذاتوں کی ہے۔
ان کے یہاں بھی تعلیم، ملازمت میں نمائندگی، مذہب اور تقافت ہر شعبے میں اعلیٰ ذات کے مسلمانوں کا غلبہ ہے۔
وزیر اعظم نرینر مودی پہلے ایسے سیاسی رہنما ہیں جنھوں نے ذات کی بنیاد پر پسماندہ مسلمانوں کو بی جے پی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی تھی۔
انھوں نے کہا تھا کہ مٹھی بھر نام نہاد اشرافیہ طبقے کے لوگ پسماندہ مسلمانوں کو پسماندگی سے نکلنے نہیں دے رہے۔
انڈیا میں دلتوں میں تعلیم کا رجحان بڑھ رہا ہےذات پات انڈیا کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ
انڈیا میں ذات کا تعلق براہ راست سماجی درجے اور تفریق سے ہے۔ یہ صدیوں پرانا سماجی نظام ہے جسے آزادی کے بعد ایک جمہوری آئین کے نفاذ کے باوجود پوری طرح ختم نہیں کیا جا سکا۔
ذات پات کے اس نظام کا سب سے زیادہ ستایا ہوا سماج کا دلت طبقہ ہے۔ انڈیا کے دلت ظلم، جبر، اہانت اور تفریق کی ہزاروں سال کی تاریخ کی تصویر ہیں۔
آزادی کے بعد آئین سازوں نے اس صورتحال کو بدلنے کے لیے دلتوں اور قبائل کو ان کی آبادی کے اعتبار سے ملک کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دی۔
اس سے دلتوں میں تعلیم عام ہوئی اور انھیں سیاسی نمائندگی ملی۔
لیکن تفریق کا شکار آبادی کے سب سے بڑے طبقے پسماندہ کلاس میں سیاسی اور سماجی بیداری قدرے بعد میں آئی۔
جنوبی ریاست تمل ناڈو اور شمال کی بہار اور اتر پردیش جیسی ریاستوں میں پسماندہ طبقوں کی تحریک چلی جس کے نتیجے میں لالو پرساد یادو کا راشٹریہ جنتا دل، ملايم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی اور نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹڈ جیسی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں۔
سنہ 1989 میں مرکزی حکومت نے پسماندہ ذاتوں کو ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت دلتوں اور پسماندہ طبقے کے لیے ریزرویشن میں 50 فیصد کی حد مقرر ہے۔
مردم شماری میں ذات سے متعلق تفصیلات کے اندارج کا اعلان انڈیا کی سیاست میں پسماندہ طبقے کے بڑھتے اثر و رسوخ اور ان کے اندر سیاسی بیداری کا عکاس ہے۔
ملک کا سب سے بڑا طبقہ ہونے کے باوجود وہ ابھی تک سیاسی اور سماجی تفریق کا شکار رہا لیکن اب یہ صورتحال بدل رہی ہے۔
اس جدید ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کی دنیا میں پرانے سماجی اور ذات پات کے نظام کی بنیاد پر آبادی کے کسی طبقے کے ساتھ تفریق برتنا مشکل ہو گا۔
انڈیا میں ہونے والا مجوزہ کاسٹ سروے ایک مساوی سماج کے تصور کی طرف پہلا قدم ہے۔