انڈیا کے آبی وسائل کے وزیر نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان کو ’ایک قطرہ پانی بھی نہیں ملے گا‘ جبکہ پاکستان کے وزیر دفاع نے جواباً کہا کہ دریاؤں کا رُخ موڑنے والی تعمیرات کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں اب یہ سوال زور پکڑ رہا ہے کہ کیا جنوبی ایشیا میں اگلا تنازع علاقے یا مذہب پر نہیں بلکہ پانی پر ہو گا؟
پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا نے دریاؤں کا بہاؤ روکا یا ان کا رُخ موڑا تو اسے 'جارحیت' تصور کیا جائے گاجب انڈیا میں آبی وسائل کے وزیر سی آر پاٹیل نے گذشتہ ہفتے متنبہ کیا تھا کہ انڈین حکومت ایسے اقدامات پر کام کر رہی ہے جن کے ذریعے پاکستان کو ’ایک قطرہ پانی بھی نہ مل سکے‘ تو خطے میں پہلے سے موجود تناؤ مزید بڑھ گیا۔
پاکستان کی جانب سے پہلے ہی برملا انداز میں کہہ دیا گیا تھا کہ دریاؤں کے رُخ موڑنے اور اس کی جانب بہنے والے پانی کو روکنا ’اقدام جنگ‘ سمجھا جائے گا۔
گذشتہ دونوں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے انڈیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس نے پاکستان کا پانی روکنے یا اس کا رُخ موڑنے کے لیے کوئی تعمیرات کیں یا سٹرکچر بنایا تو اسے تباہ کر دیں گے۔
اگر سرحد کے دونوں جانب وزرا کے بیانات پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ حالیہ کشیدگی اب براہ راست پانی کے مسئلے سے جڑی ہے اور یہی مسئلہ اس کا رُخ طے کر سکتا ہے۔
انڈیا کی جانب سے دہائیوں پرانے سندھ طاس معاہدے کی معطلی نے یقیناً پاکستان کے ساتھ پہلے سے موجود کشیدہ تعلقات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ یہ معاہدہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ان دو حریفوں کے درمیان تعاون کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا تھا۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ایک حملے کے بعد انڈیا نے اس معاہدے کو یکطرفہ طور معطل کیا جس سے ماہرین کے بقول دونوں ملکوں میں صرف سفارتی ہی نہیں بلکہ سٹریٹجک اور عسکری سطح پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا نے دریاؤں کا بہاؤ روکا یا ان کا رُخ موڑا تو اسے ’جارحیت‘ تصور کیا جائے گا اور یہ کہ پاکستان پانی کو قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر دیکھتا ہے۔
دونوں طرف سے سخت زبان میں تناؤ بھرے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں اور اب یہ سوال زور پکڑ رہا ہے کہ کیا جنوبی ایشیا میں اگلا تنازع علاقے یا مذہب پر نہیں بلکہ پانی پر ہو گا؟
اس سے پہلے ذرا یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس سوال کا پس منظر کیا ہے۔
انڈس واٹر ٹریٹی یا سندھ طاس معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگوں اور متعدد سفارتی و فوجی بحرانوں کے باوجود قائم رہاسندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
انڈس واٹر ٹریٹی یا سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی نگرانی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کا مکمل کنٹرول ملا جبکہ مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج پر انڈیا کو اختیار دیا گیا۔
یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگوں اور متعدد سفارتی و فوجی بحرانوں کے باوجود قائم رہا۔ مگر اب پہلی بار اس کے مستقبل پر سنگین سوالات اُٹھ رہے ہیں۔
اسی ہفتے انڈیا نے اعلان کیا کہ وہ اس معاہدے کے تحت تعاون کو معطل کر رہا ہے اور اس کی وجہ پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہونا قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ معاہدے سے باضابطہ دستبرداری نہیں ہے لیکن تاریخی حوالے سے یہ اب تک کا سب سے سنگین دھچکا ضرور ہے۔
اس کے جواب میں پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اگر دریاؤں کا بہاؤ روکا گیا تو اسے ’اعلانِ جنگ‘ تصور کیا جائے گا، خاص طور پر ایک ایسے ملک کے خلاف جو پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار ہے۔
پاکستان کی حکومت نے کہا ہے کہ ’اگر انڈیا نے پاکستان کا پانی روکا یا اس کا رخ موڑا تو اسے اعلان جنگ سمجھا جائے گا اور مکمل قومی طاقت سے جواب دیا جائے گا۔‘
پاکستان نے یہ بھی کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور اس میں ’یکطرفہ معطلی کی کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان کے لیے پانی ایک اہم قومی مفاد اور 24 کروڑ عوام کی زندگی کی ضمانت ہے، جس کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔‘
لیکن کیا اس معاہدے کی معطلی اور اس کے نتیجے میں پانی رکنے کی صورت میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہو سکتی ہے؟
مبصرین کے مطابق فوری طور پر دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی بنیاد پر جنگ ہونے کا خطرہ نہیں ہے’پاکستان اور انڈیا کسی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے‘
جب بی بی سی نے یہی سوال ماہرین سے پوچھا تو انھوں نے ایک محتاط انداز میں کہا کہ ایسا ہونے کے امکانات کم ہیں تاہم یہ ناممکن نہیں ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ ’پاکستان اور انڈیا دونوں ہی ایک باقاعدہ جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی فوری طور پر پانی نہیں روکا جا سکتا۔ نہ ہی اتنے بڑے دریاؤں کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ تاہم مستقبل میں یعنی آئندہ 15، 20 سالوں میں انڈیا ان تین دریاؤں پر کئی سو ڈیم بنا سکتا ہے جن کی منصوبہ بندی پہلے ہی انھوں نے کی ہوئی ہے اور تب پاکستان کو پانی کا بڑا مسئلہ ہوگا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر دیکھا جائے تو ہم ایک باقاعدہ بڑی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ پاکستان کے معاشی حالات بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اور نہ ہی جنگ سے وہ مقصد حاصل ہو گا جو پاکستان حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کو اس مسئلے کا حل صرف سفارتی طور پر ہی ڈھونڈنا پڑے گا اور فوری طور پر اس معاملے پر عالمی سطح پر ایک سخت موقف اختیار کرنا پڑے گا۔‘
سینیئر تجزیہ کار عامر ضیا بھی اس موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ابھی فوری طور پر دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی بنیاد پر جنگ ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ابھی زیادہ خطرہ اس بات کا ہے کہ پہلگام میں ہونے والے واقعے کے پس منظر میں انڈیا کوئی کارروائی کر سکتا ہے، مگر پانی کے مسئلے پر جنگ فی الحال نہیں ہو گی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ابھی انڈیا کے پاس وسائل نہیں کہ وہ پانی روک سکے۔ لیکن اگر انڈیا اس معطلی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو مستقبل میں یہ دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑا تنازعہ بن جائے گا۔ اور پھر پاکستان کا ردعمل بھی آئے گا۔‘
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر مملکت عقیل ملک نے کہا ہے کہ انڈیا کی جانب سے پانی کی تقسیم کے سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر پاکستانی حکومت بین الاقوامی قانونی چارہ جوئی کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
وزیر مملکت برائے قانون و انصاف عقیل ملک نے خبر رساں ادارے رؤئٹرز کو بتایا کہ ’اسلام آباد کم از کم تین مختلف قانونی آپشنز پر کام کر رہا ہے، جس میں ورلڈ بینک اور سندھ طاس معاہدے کے سہولت کاروں کے ذریعے اس مسئلے کو اٹھانا شامل ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان دی ہیگ میں قائم مستقل ثالثی کی عدالت یا بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی کارروائی کرنے پر غور کر رہا ہے۔
پاکستان اور انڈیا ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ یہ جنگیں 1948، 1965 اور 1971 میں لڑی گئیں۔ آخری مرتبہ سنہ 1971 میں لڑی جانے والی جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو اپنا ایک حصہ کھونا پڑا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا۔
محدود پیمانے پر ایک چوتھی جنگ سنہ 1999 میں کارگل کے مقام پر بھی لڑی گئی جس میں پہلی مرتبہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کے خدشات کھل کر دنیا کے سامنے آئے۔
دوسری جانب تجزیہ کار اس سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ پانی پر تنازعہ کھڑا ہونے سے خطے میں ایک مثال قائم ہو جائے گی جو ’ورلڈ آرڈر‘ کو خراب کرے گی۔
عامر ضیا کے مطابق ’خود انڈیا میں بھی چین سے اہم دریا آ رہے ہیں، اگر چین یہ فیصلہ کرے کہ وہ انڈیا کے لیے پانی ڈیمز وغیرہ بنا کر روک دے گا تو انڈیا کیا کر سکتا ہے؟ میرے خیال میں خود انڈیا کی جانب سے بھی یہ سیاسی بیانیہ مضبوط کرنے کی کوشش ہے۔
’اگر ایسا کرنے میں انڈیا کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر تو یہاں جنگل کا قانون چلے گا کہ کوئی بھی بڑا ملک کچھ بھی کر سکتا ہے۔‘

لیفٹیننٹ جنرل ر امجد شعیب کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ عالمی ادارے کی نگرانی میں طے پایا ہے اور انڈیا اس انداز میں اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ انڈیا پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ پاکستان معاہدے میں ان تبدیلیوں پر تیار ہو جائے جن کا مطالبہ انڈیا طویل عرصے سے کر رہا ہے اور پاکستان انھیں نظر انداز کرتا آیا ہے۔ ’میرے خیال میں پاکستان کو اپنا کیس بہت سوچ سمجھ کر، باقاعدہ پلاننگ اور اس معاملے پر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر لڑنا ہوگا۔‘
ادھر انڈیا میں بھی ان کی خفیہ ایجنسی ’ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ‘ (را) کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلگام حملہ انڈین سکیورٹی اداروں کی ناکامی کی وجہ سے ہوا تاہم اس معاملے پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ جنگ کا امکان نہیں ہے بلکہ معاملات بات چیت سے حل ہونے کی توقع ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل ر امجد شعیب کہتے ہیں کہ ’سندھ طاس معاہدے پر جو کچھ ہوا ہے اس میں پاکستان خود بھی قصوروار ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی پوزیشن کمزور ہے کیونکہ ہم نے ایسے منصوبے نہیں بنائے، نہ ہی ان کی منصوبہ بندی کی ہے جنھیں ہم عالمی پلیٹ فارمز پر پیش کر سکیں کہ ہمیں ان دریاؤں کے پانی کی ضرورت ہے۔ جب ہم ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو انڈیا اپنا یہ حق استعمال کرتا ہے کہ جب پاکستان وہ پانی استعمال نہیں کر رہا تو ہم کر لیتے ہیں۔ اور یہ تسلیم کیا جاتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کو فوری طور پر ڈیمز کے منصوبوں پر کام کرنا ہو گا اور اپنا کیس بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر مضبوط کرنا ہوگا۔‘

انڈیا کی سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کی کوششیں
خیال رہے کہ انڈیا اس سے پہلے سندھ طاس معاہدے کی کئی شقوں پر اعتراض کر چکا ہے۔ گذشتہ برس اگست میں انڈیا نے پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کی شق 13(3) کے تحت معاہدے پر ’نظرثانی اور تبدیلیوں‘ کے لیے حکومتی سطح پر مذاکرات کے مطالبے کا جو نوٹس بھیجا تھا اس میں بھی نظرِثانی کے مطالبے کے حوالے سے سرحد پار دہشت گردانہ سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ دہشت گردی معاہدے کے ہموار طریقے سے کام کرنے میں رکاوٹ ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ انڈین حکومت کی جانب سے 1960 میں طے پانے والے معاہدے میں تبدیلیوں کا مطالبہ سامنے آیا ہو۔ دو برس قبل بھی انڈیا نے اس سلسلے میں پاکستان کو ایک نوٹس بھیجا تھا لیکن اس میں صرف ’تبدیلیوں‘ پر بات چیت کا ذکر تھا تاہم اگست 2024 میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اس معاہدے پر ’نظرِ ثانی‘ کی بات بھی کی گئی ہے۔
انڈین میڈیا میں اس نوٹس کو انڈین حکومت کے اس ارادے سے تعیبر کیا گیا تھا کہ جس کے تحت وہ 64 برس پرانے اس معاہدے کو ختم کر کے از سرِ نو ایک نئے معاہدے پر بات چیت کرنا چاہتی ہے۔
دوسری جانب یہ ایسا پہلا موقع نہیں کہ انڈیا کی جانب سے شدت پسندی کی کسی کارروائی کے بعد سندھ طاس معاہدے کو بطور ’ہتھیار‘ استعمال کرنے کی بات کی گئی ہو۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران جتنی بار پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعات میں اضافہ ہوا ہے اتنا ہی سندھ طاس معاہدہ توڑنے کی باتیں بھی اٹھی ہیں۔
سندھ طاس معاہدے کے بارے میں انڈیا میں گذشتہ دو عشرے میں بالخصوص بی جے پی کے دورِ اقتدار میں حکومت کی پوزیشن سخت ہوتی گئی ہے۔
سنہ 2001 اور سنہ 2002 میں جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالات کشیدہ ہوئے تو انڈیا کے آبی وسائل کے وزیر بجوئے چکرورتی نے کہا تھا کہ ’پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے انڈیا کئی اقدامات کر سکتا ہے اور اگر ہم نے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان خشک سالی کی زد میں آ جائے گا اور وہاں کے لوگوں کو پانی کے ایک ایک قطرے کے لیے بھیک مانگنی پڑے گی۔‘
سنہ 2016 میں اڑی میں ایک فوجی کیمپ پر شدت پسندوں کے حملے کے ڈیڑھ ہفتے بعد ستمبر میں سندھ طاس معاہدے کی ایک جائزہ میٹنگ ہوئی تھی جس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے اس معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔‘
سنہ 2019 میں پلوامہ میں سکیورٹی فورسز پر دہشت گردانہ حملے کے بعد مرکزی وزیر نتن گڈکری نے بیان دیا تھا کہ ’حکومت نے پاکستان جانے والے پانی کی تقسیم کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اور اگست سنہ 2019 میں آبی وسائل کے وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت نے کہا کہ ’سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کیے بغیر پاکستان جانے والے پانی کو روکنے کے لیے کام پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔‘