پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکتوں اور انڈیا، پاکستان کشیدگی کے بعد کشمیر کے سیاحتی مقامات سنسان اور ٹورزم انڈسٹری سے جُڑے لاکھوں لوگ مایوس ہیں
اکنامِک سروے کے مطابق جموں کشمیر کی کل آمدن میں سیاحت کا حصہ چار فیصد سے بھی کم ہے’اگر ہم نقصان کا حساب لگانے بیٹھیں، تو ہارٹ اٹیک آجائے گا اور ہمیں ہسپتال میں داخل ہونا پڑے گا۔‘ یہ بات کہتے ہی سرینگر کی رہائشی 33 سالہ سائمہ زرگر کی آنکھیں بھر آئیں۔
سائمہ نے کئی برس قبل تعلیم مکمل کرتے ہی ٹریول ایجنٹ کے طور پر کام شروع کیا تھا لیکن آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر میں سیاحوں کا تانتا بندھ گیا تو دوسرے سینکڑوں نوجوانوں کی طرح سائمہ نے بھی ہوٹل انڈسٹری میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔
سرینگر اور پہلگام میں دو تھری سٹار ہوٹلز کی مالک سائمہ کہتی ہیں کہ ’پہلگام حملے کے بعد سب کچھ ختم ہو گیا۔‘
سرینگر کے سیاحتی مقام نشاط میں 50 کمروں والے ’بہترین ہوٹل‘ میں آج کوئی بھی سیاح مقیم نہیں ہے۔ 25 میں سے صرف دو ملازم رہ گئے ہیں کیونکہ باقیوں کو رخصت کر دیا گیا ہے۔
’اِدھر جان کے لالے پڑے ہیں۔ اگست کے آخر تک ہوٹل کے سارے کمرے ایڈوانس میں بُک تھے لیکن اب ہمیں پیسہ واپس دینا پڑ رہا ہے۔‘
پہلگام میں حملے کے بعد چند روز کے اندر ہی لاکھوں سیاح کشمیر چھوڑ کر چلے گئے تھےسائمہ اور ان جیسے سینکڑوں ہوٹلیئرز کہتے ہیں کہ جو پیسہ سیاحوں نے ایڈوانس بُکنگ کے لیے دیا تھا، وہ انھوں نے اپنے ہوٹلوں میں سہولیات بہتر بنانے کے لیے صرف کیا تھا۔ اب سرکاری حکم نامے کے مطابق ان رقوم کو واپس کرنا پڑ رہا ہے۔
یہی حال اُن ہزاروں لوگوں کا ہے جنھوں نے سیاحوں کے رش کو دیکھتے ہوئے بینکوں سے قرض لے کر لگژری گاڑیاں خریدی تھیں۔ رواں سال کے شروع میں انڈین حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ گذشتہ دو برسوں کے دوران دو کروڑ سے زیادہ سیاح جموں و کشمیر کی سیر کے لیے آئے۔
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے سیاحوں کی تعداد میں اس ریکارڈ اضافے کو کشمیر میں علیحدگی پسندی کی شکست اور امن کی مکمل واپسی سے تعبیر کیا۔ ایسے ہی بیانات وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی دیے۔
تاہم 22 اپریل کو پہلگام کی بائی سرن وادی میں مسلح افراد نے سیاحوں کے ایک گروپ پر فائرنگ کی جس میں 25 سیاح اور ایک مقامی گھوڑے بان مارے گئے۔
چند روز کے اندر ہی لاکھوں سیاح وادی چھوڑ کر چلے گئے۔ اب نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہو گئی ہے اور اس صورتحال سے کشمیر کے حساس سماجی حلقوں میں ایک نئی بحث چھِڑ گئی ہے۔
سرینگر اور پہلگام میں دو تھری سٹار ہوٹلز کی مالک سائمہ کہتی ہیں کہ ’پہلگام حملے کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا‘’سیاحت نہیں زراعت سے زندگی چلتی ہے‘
اس سال فروری میں بجٹ کی منظوری سے قبل حکومت نے ایک اقتصادی سروے جاری کیا۔ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے ماہر اقتصادیات اور معروف کالم نویس اعجاز ایوب کہتے ہیں کہ ’سیاحت بے شک فوری آمدنی کا ذریعہ ہے لیکن اس کے لیے مستقل امن کی ضرورت ہے۔
’چونکہ سیاحتی سرگرمیاں بہت نمایاں ہیں اور یہ شہری علاقوں میں ہوتی ہیں اس لیے لوگوں کو لگتا ہے کہ سیاحت ہی معیشت کی شہ رگ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ اکنامِک سروے کے مطابق جموں کشمیر کی کل آمدن میں اس کا حصہ چار فیصد سے بھی کم ہے۔‘
کشمیری ماہرین کی رائے ہے کہ انھیں زراعت اور اس سے جڑے شعبوں کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنا چاہیےاکنامِک سروے کے مطابق جموں کشمیر کی جی ڈی پی یعنی آمدن میں زراعت اور اس سے جڑے دوسرے شعبوں کا 20فیصد حصہ ہے۔
ان اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کشمیری سیاست دان اور تجزیہ نگار سنجے پروا کہتے ہیں کہ ’سیاحت نہیں، زراعت سے زندگی چلتی ہے۔ ہم شکارا یا ہاؤس بوٹ کھا نہیں سکتے۔‘
اب اکثر حلقے ٹورازم کو ایک گلامرائزڈ صنعت قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹورازم انڈسٹری پر تکیہ کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ کئی کشمیری ماہرین کی رائے ہے کہ انھیں زراعت اور اس سے جڑے شعبوں کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنا چاہیے۔
کشمیر کے متعدد نوجوانوں نے یورپ اور امریکہ کی طرز پر جدید باغبانی کو اپنایا’حالات جیسے بھی ہوں درختوں پر سیب تو اُگیں گے‘
پچھلے چند برسوں کے دوران جہاں بڑی تعداد میں نوجوانوں نے ٹورازم انڈسٹری کے ساتھ اپنا مستقبل جوڑا وہیں متعدد نوجوانوں نے یورپ اور امریکہ کی طرز میں جدید باغبانی کو بھی اپنایا۔
فیاض الحسن سوپور کے ایک کاشتکار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے چند ہی سال قبل 25 ایکڑ کے وسیع و عریض باغ میں ہائی ڈینسٹی سیبوں کی کاشت شروع کی۔ ’آج ہم درجنوں نوجوانوں کو روزگار بھی دے رہے ہیں۔ ٹورازم امن کا محتاج ہے، لیکن باغبانی کانفلکٹ پروف ہے۔ باہر کچھ بھی ہو رہا ہو، حالات جیسے بھی ہوں، سیب تو درخت پر اُگیں گے ہی۔‘
فیاض کا کہنا ہے کہ ’ٹورازم امن کا محتاج ہے لیکن باغبانی کانفلکٹ پروف ہے‘فیاض کی طرح ہی دانش رمضان نے بھی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک وسیع باغ میں سیبوں کی کاشت شروع کی ہے۔ دانش کہتے ہیں کہ ’کشمیر سیبوں کی کاشت کے لیے بہترین جگہ ہے۔ ہم روایت سے ہٹ کر ہائی ڈینسٹی سیبوں کی کاشت کر کے عالمی سطح پر اور انڈین مارکیٹ میں چینی اور امریکی سیب کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔‘
چند برس قبل دانش کے دماغ میں بھی یہ خیال آیا تھا کہ وہ انجینیئرنگ کی ڈگری مکمل کرتے ہی ٹورازم انڈسٹری میں پیسہ لگائیں گے۔ ’لیکن جب میں نے انٹرنیٹ پر تحقیق کی اور دیکھا کہ ماڈرن ذراعت میں ترقی کے بہت زیادہ امکانات ہیں تو میں نے ہائی ڈینسٹی ایپل کی کاشت کا فیصلہ کیا۔‘
فیاض الحسن اور دانش جیسے درجنوں نوجوانوں نے اٹلی سے ہائی ڈینسٹی سیب کے پودے درآمد کر کے کشمیر کی ایگریکلچر انڈسٹری میں ایک خاموش انقلاب برپا کر دیا ہے۔