غزہ سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ سدرہ الباردینی جیسے ہی کلینک سے مصنوعی بازو لگا کر واپس آئیں انہوں نے اپنی بائیسکل لی اور اردن کے پناہ گزین کمیپ میں چلانا شروع کر دی۔خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق سدرہ کا ایک بازو گزشتہ برس اسرائیلی حملے میں ضائع ہو گیا تھا۔ وہ ان دنوں اپنی والدہ کے ہمراہ ایک پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہیں۔سدرہ غزہ کے نصیرات سکول میں قائم پناہ گزین کیمپ پر حملے کے دوران زخمی ہوئی تھی۔ یہ غزہ کے متعدد سکولوں میں سے ایک ہے جسے اسرائیلی حملوں کے بعد عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کیا گیا تھا۔سدرہ کی والدہ صابرین البارینی نے فون پر روئٹرز کو بتایا کہ غزہ میں صحت کا نظام تباہ ہو چکا تھا اور زخمی بچی کے بازو کا علاج ممکن نہ تھا۔ اب وہ کھیل رہی ہے، اور اس کے تمام دوست اور بہن بھائی اس کے بازو کی طرف متوجہ ہیں۔‘وہ اس دن کے لیے بار بار خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ ’میں بیان نہیں کر سکتی کہ میں اپنی بیٹی کو خوش دیکھ کر کتنی شکر گزار ہوں۔‘غزہ کی سدرہ کے لیے یہ مصنوعی بازو چار ہزار کلومیٹر دور پاکستان کے شہر کراچی کی ایک کمپنی بائیونکس نے بنایا تھا جو مختلف زاویوں سے تصویریں لینے اور اپنی مرضی کے مصنوعی سامان کے لیے تھری ڈی ماڈل بنانے کے لیے سمارٹ فون ایپ کا استعمال کرتی ہے۔اس کمپنی کے سی ای او انس نیاز نے بتایا کہ اُن کے سوشل انٹرپرائز سٹارٹ اپ نے سنہ 2021 سے پاکستان کے اندر ایک ہزار سے زیادہ ایسے مصنوعی اعضا ڈیزائن کر کے اُن کو متاثرہ افراد کو لگایا ہے۔زیادہ تر ایسے افراد یا مریضوں کے لیے مصنوعی اعضا کی ادائیگی کارپوریٹ سپانسرشپ اور عطیات کے ذریعے اکھٹے کیے فنڈ سے کی جاتی ہے۔یہ پہلا موقع تھا جب تنازعات میں متاثر ہونے والے کسی فرد کو مصنوعی اعضا فراہم کیے گئے۔آٹھ سالہ سدرہ اور تین سالہ حبیبت اللہ غزہ میں اپنے دونوں بازو اور ایک ٹانگ سے محروم ہو گئی تھیں۔ دونوں کے لیے مصنوعی اعضا کی تیاری کئی دن تک آن لائن مشاورت اور ورچوئل فٹنگز کے مراحل سے گزری۔
پاکستان میں تیار کیے گئے مصنوعی بازو کی قیمت ڈھائی ہزار ڈالر ہے۔ فوٹو: روئٹرز
اس کے بعد انس نیاز ان بچیوں کو مصنوعی اعضا کی اپنی کمپنی کی پہلی بیرون ملک ڈیلیوری کرنے کراچی سے اردن کے دارالحکومت عمان پہنچے۔
سدرہ کے لیے مصنوعی بازو کو عمان کے مفاز کلینک نے سپانسر کیا، جبکہ حببت اللہ کے لیے مصنوعی اعضا کی فراہمی پاکستانیوں کے عطیات سے ممکن بنائی گئی۔عمان کے مفاز کلینک کے سی ای او عنتسر اساکر نے کہا کہ کلینک نے کم لاگت اور دور رہتے ہوئے بھی عملی طور پر مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے مصنوعی اعضا کے لیے بائیونکس کے ساتھ شراکت کی۔انس نیاز نے کہا کہ ہر مصنوعی بازو کی قیمت تقریبا ڈھائی ہزار ڈالر ہے، جو کہ امریکہ میں بنائے جانے والے مصنوعی اعضا سے بہت کم ہے جہاں ان کی قیمت دس ہزار تا 20 ہزار ڈالر ہے۔