ایمبولینس نظم جانتے بھی ہو
یہ کس کا راستہ روکا ہے
یہ کوئی اور ہی مخلوق ہے
جو تمہاری طرح تو بالکل بھی نہیں
انکا فرقہ صرف انسانیت ہے
یہ وہی ایمبولینس اور اس کا عملہ ہے
جو اپنے فرض سے غافل نہیں ہوتے
حالات کیسے بھی ہوں
یہ اپنے حصہ کا کام کرنا بخوبی جانتے ہیں
ابھی جب توڑ پھوڑ، شور و غُل
اور اپنوں سے مار پِیٹ کر کے
زخموں سے چُور ہو کر گرو گے
تو یہی مخلوق تم کو اٹھا کر لے جائے گی
تمہاری جان بچائے گی
کتنی عجیب بات ہے نا
کہ میں نے انکی ایمبولینس میں
موجود دائیں بائیں دونوں سٹریچرز پر کئی بار
باہر خونی جنگ کرنے والوں کو
اندر اکھٹے لیٹے دیکھا ہے
کیونکہ انکا فرقہ انسانیت ہے
مگر تم نے یہ کر ڈالا؟
جسے تم کو بچانا تھا
جسے تم کو اُٹھانا تھا
اس کو ہی توڑ دیا ہے
خدارا.... یہ کیا کِیا ہے
خدارا.... یہ کیا کِیا ہے
 
طارق اقبال حاوی
"دیا بھی جو تو کیا دیا" بجھا بجھا سا دل دیا؟ جواُن کے روبرو رکھا بجھا بجھا سا دل دیا
وہ مسکرادیے کہا ، بجھا بجھا سا دل دیا؟
ہو ا کا دم اکھاڑ کر ، دیا بھی آخرش بجھا
بلا کا کام کر گیا ، بجھا بجھا سا دل دیا
شعور لینے آگئیں دبی دبی سی خرمنیں
عجب سی روشنی میں تھا ، بجھا بجھا سا دل دیا
لگن کی ہیں کرامتیں یاعشق کا ہے معجزہ
لگی جو لو تو جل اُٹھا بجھا بجھا سادل دیا
وہ جس کی ضد پہ دل دیا اسی لے کے دل کہا
"دیا بھی جو تو کیا دیا" بجھا بجھا سا دل دیا؟
بچی ہے مشکلوں سے بس ہوا کی عزت نفس
ہوا کو بھی رلا گیا ، بجھا بجھا سا دل دیا
اک آتش خیال تھی پے روشنی کمال تھی
جِلا ملی تو پھر جلا ، بجھا بجھا سا دل دیا
ہزار مفتی کاوشیں ، تمام رائگاں گئیں
نہ جل سکا تو رکھ دیا بجھا بجھا سا دل دیا
 
سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی)
ہم آج بھی ہیں مُرْشِد و سَیَّد ہزار کے روکے عدو کے وار جو خود کو ہی وار کے
جیتا ہوں ہار پیار کے ، میں خود کو ہار کے
تو ہی بتا کہ چھوڑ کے میں عشق کیا کروں
دوچار ہی تو دن ملے ، دنیا میں پیار کے
بیچے ہیں ہاتھ، مرتبہ بیچا نہیں حضور
ہم آج بھی ہیں مُرْشِد و سَیَّد ہزار کے
انسانیت کا درس جو دل سے نکال دے
ہیں بوجھ وہ عبادتیں ، سجدے ادھار کے
آتے ہی اسکے آتے ہیں قوس قزح کے رنگ
جاتے ہی اسکے جاتے ہیں موسم بہار کے
بچوں کا میرے دیس کے کچھ ایسا حال ہے
مرجھائے جیسے پھول ہوں اجڑے مزار کے
بے اختیار کب تمہیں بھیجا گیا یہاں
ہم نے تو دن دئے تھے تمہیں اختیار کے
تاعمر عَطر بیز یوں کرکے مرا چمن
لو چل دیا ہے سانس کی مالا اتار کے
کچھ ایسے تیری یاد نے سرشار کردیا
غم جیسے مٹ گئے ہوں سبھی روزگار کے
جی بھر کے ظلم جان پر مفتی کئے مگر
توبہ کے در کُھلے رہے ، پروردگار کے
سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی)
کہیں شمر سے نسبتیں تو نہیں ہیں؟ زمٰیں کھینچئے ، آسماں کھینچئے گا
کسی سر سے مت سائباں کھینچئے گا
کرو روح ، اسوار اپنے بدن پر
تنفس کا پھر کارواں کھینچئے گا
کہ مرغولہ ٹوٹا ہوا دل بنادے
اِس انداز سے یہ دھواں کھینچئے گا
جو معدوم امید ہی ہوگئی ہے
تو آہ ِ دل ِ ناتواں کھینچئے گا
اگر ڈوبنے کو ہے سانسوں کی کشتی
طنابیں بھی ، تب رائگاں کھینچئے گا
جو اک چھت تلے ساتھ ممکن نہیں ہے
میاں ، پھر خطِ درمیاں کھینچئے گا
نشانے پہ مجھ کو کھڑا کیجئے گا
نگاہوں سے پھر یہ کماں کھینچئے گا
پڑاؤ کو ہے دل کا ویران خانہ
یہ چلّے بھی سارے وہاں کھینچئے گا
کہیں شمر سے نسبتیں تو نہیں ہیں
جو ، اب کان سے بالیاں کھینچئے گا
ملاتے رہو پہلے نقطوں سے نقطے
بڑا سا ، پھر اک دائرہ کھینچئے گا
میں جیسے ہی دوں سجدہ ء آخری
بھلے لاش یاں سے وہاں کھینچئے گا
ڈرو نہ ہوا کے تھپیڑوں سے مفتی
جہاں تک چلے بادباں کھینچئے گا
 
سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی)
آندھیاں کام کریں اپنا بُجھائیں -جائیں مجھ کو ساحل کی کہانی نہ سنائیں - جائیں
پہلے طوفان سے کشتی کو بچائیں -جائین
میں دیا ہوں تو مرا کام فقط جلنا ہے
آندھیاں کام کریں اپنا بُجھائیں -جائیں
سر کے بل آئیں گے ہم لوگ ترے کوچے میں
ہم کو دکھلائی اگر اور ادائیں - جائیں
واعظو سچ کی بھی تعلیم ضرور ی ہے بہت
میکدے ساتھ مرے آپ بھی آئیں -جائیں
جان و دل ، چین سکوں سب تو لُٹایا میں نے
اب مجھے اور نہ للہ ستائیں ۔ جائیں
" ایک سجدہ" ہی جو کافی نہیں پیشانی کو
دام پھر آپ تو سجدوں کے بڑھائیں - جائیں
میری تعریف پہ وہ منہ سا ، بنا کر بولے
اسقدر آپ نہ اب ہم کو بنائیں - جائیں
انکی آنکھوں کے مقابل میں سُبو لائے ہو
اپنی اوقات خدارا نہ دکھائیں - جائیں
دل کسی طور عبادت کی طرف جاتا نہیں
سارے معبود یہ مندر سے اٹھاِئیں - جائیں
لیجئے ہوگیا برباد یہ سید زادہ
اور کیا چاہتے ہیں آپ بتائیں - جائیں
میری تربت کے مقدر میں تو ویرانی ہے
آپ بھی خاک پہ کچھ خاک اُڑائیں - جائیں
حسن کا زعم جو دیکھا تو یہ بولے مفتی
ہم نے دیکھا ہیں بہت آپ سے جائیں -جائیں
سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی)
بستر پہ کئی روز تُو بیمار پڑے گا بد نظروں کا سایہ جو مرے یار پڑے گا
بستر پہ کئی روز تُو بیمار پڑے گا
اک خستہ سا گھر سر ترے اسوار رہے گا
حالانکہ تری راہ میں دربار پڑے گا
کردے گی یہ حالات کی سختی تجھےکندن
چھوٹی سی عمر میں بھی بڑا بار پڑے گا
تم نین میں مستی کی طرح مجھ کو جگہ دو
دوچار قدم یہ دل نادار پڑے گا
یہ امن و سکوں اتنا بھی آساں نہیں سن لے
جانا تجھے سرحد کے بھی اُس پار پڑے گا
اظہار کا پھر وقت ملے وَاللہُ اَعلَم
مل جائے تو کس بھا ؤ یہ اقرار پڑے گا
میں وصل کی بابت میں بتاتا ہوں ابھی سے
گھُمْسان کا رَن آپ سے سرکار پڑے گا
رحمت تری کیسے نہ بھلا جوش میں آئے
قدموں میں جو مفتی سا گنہ گار پڑے گا
 
سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی)
وہ شام ڈھلتے ہی سارے کفن میں لوٹ آئے یہ کیسی چال میں اور بانکپن میں لوٹ آئے
تمام زخمی عجب خستہ تن میں لوٹ آئَے
جو صبح "علم گھر" اطفال ِ خوش لباس گئے
وہ شام ڈھلتے ہی سارے کفن میں لوٹ آئے
فرات ِعلم کو دیکھا حصار ِ حُرمل میں
سو پیاس اپنی چھپا کر دَہَن میں لوٹ آئَے
دعائیں کرتی رہیں واں ، کھڑی کئی مائیں
کہ روح بچوں کی شاید بَدَن میں لوٹ آئَے
حِرا کی روشنی تو لامکاں سے ہو آئی
جو شب پسند تھے طرزِ کُہَن میں لوٹ آئے
ہر ایک لاش یہ بچے کی کہہ رہی تھی وطن
"عدم" کی راہ سے ہم تو "عدن" میں لوٹ آئے
دعا لبوں پہ ہراک ہموطن کے ہے مفتی
بہار روٹھی ہوئی پھر چمن میں لوٹ آئے
 
سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی)
جو چلا جائے جو آتا نہیں پیارے واپس جو چلا جائے جو آتا نہیں پیارے واپس
اند کو دیکھ کے آئے ہیں ستارے واپس
کردیئے ہم نے سمندر کو کنارے واپس
ہم بھی سر پہ نہیں رکھتے ہیں کسی کا احساں
سُود کے ساتھ یہ لو قرضے تمہارے واپس
نم نگر رہنے کو آئی ہے جو وہ ذات لطیف
محفلیں پھر سے سجانے لگے تارے واپس
کوئی تو بات ہے پوشیدہ وہاں پر کہ جہاں
جو چلا جائے جو آتا نہیں پیارے واپس
رب نےانسان کو جو تخت خلافت بخشا
خبط ابلیس کو ہے تب سے اتارے واپس
انکے عارض کا بھی دیدار ضروری ہے مگر
زلف جو بگڑے تو پھر کون سنوارے واپس
میری بے تابیء دل کو ہی فقط دوش نہ دو
چشمِ جاناں بھی تو کرتی تھی اشارے واپس
سر چڑھا جن کے مئے نخوت و غفلت کا نشہ
وقت نے ایسے بہت لوگ سدھارے واپس
جس پہ اسوار جنوں ہوتا تھا پڑھنے کا کبھی
منہ پہ وہ مار گیا آج شمارے واپس
لب پہ اک حرف شکایت بھی جو آئے کہنا
جب بھی آؤ گے مری راہ میں پیارے واپس
مفتی ہاتھوں سے لکھے نامے جو مانگے اس نے
زیست کے ہم نے کئے سارے سہارے واپس
 
سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی)
رہزنوں کی فوج ہے اور راہبر نرغے میں ہے رہزنوں کی فوج ہے اور راہبر نرغے میں ہے
اک ہجوم بے بصیرت دیدہ ور نرغے میں ہے
پیش ِ تھا الفاظ کے ردو بدل میں پیش پیش
فوج ہمزہ کی ہے اور زیر وزبر نرغے میں ہے
دل تو ہے ہی اور میری جاں جگر نرغے میں ہے
ایک فوج ضبط ہے اور چشم تر نرغے میں ہے
گھر کا نقشہ کھو گیا اور خستہ دیواریں ہوئیں
گھر بنے گا کس طرح جو کاری گر نرغے میں ہے
اپنی رنگت کرکے قرباں ، حکم رب پہ گامزن
یورش عصیاں سے لڑتا اک حجر نرغے میں ہے
شیخ و زاہد دیکھ کر کچھ رند ہیں بے چین سے
ان کو لگتا ہے کہ اب ساقی کا گھر نرغے میں ہے
باد صر صر پر تو جیسے اک جنوں اسوار ہے
ہر طرف سے وار ہے اور دیپ گھر نرغے میں ہے
ہے کسی کی یاد جو کہ سر چڑھی ہے کیا کروں
آنکھ کیسے بند کرلوں دل اگر نرغے میں ہے
ایک کو دنیا ملے گی ایک مقتل حائے گا
جھوٹ ساحب خیر سے ہے سچ مگر نرغے میں ہے
ہے حسد کی آگ میں سورج قمر تارے فلک
بد نظر ہیں ان گنت رشک قمر نرغے میں ہے
بارشیں دینے کمک اب آندھیوں کو آگئیں
کچی مٹی سے بنا اک خستہ گھر نرغے میں ہے
رو ئتیں سب کی جدا ہیں چاند روزہ مختلف
یوں مسلمانوں کی یارو شب قدر نرغے میں ہے
جرم بھی تو دیکھیئے کہ منکر فتوی ہے وہ
چھوڑ دیں مفتی کو صاحب وہ اگر نرغے میں ہے
 
سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی)
پھر بھی لب مل لئے رخسار سے تدبیر کے ساتھ پا بہ زنجیر ہوئے زلف گرہ گیر کے ساتھ
پھر بھی لب مل لئے رخسار سے تدبیر کے ساتھ
ہم‌کو قرآن کی آیات نے رہ دکھلائی
جب بھی بھٹکے کسی لکھی ہوئی تفسیر کے ساتھ
دل کی دھڑکن نے ترے نام کی تسبیح پڑھی
زخم دیرینہ کی چھننے لگی تاثیر کے ساتھ
ایک سے ایک جو شہکار ہوئے دیکھ لئے
کوئی تصویر نہ ٹھہری تری تصویر کے ساتھ
نیند میٹھی تھی مگر خواب ذرا ترش رہا
اس لئے ہم نے بگاڑی نہیں تعبیر کے ساتھ
سننے والوں پہ اثر اور بھی گہرا ہوتا
ساتھ چہرہ بھی جو دیتا تری تقریر کے ساتھ

عرش والوں نے بھی فریاد سنی جیسے ہی
صبح کی تال ملی نالہ ء شب گیر کے ساتھ

دیر کے کام تھے عجلت میں جو کرنا چاہے
جلدی جلدی میں بھی پہنچے بڑی تاخیر کے ساتھ
بن گیا مصحف آیات محبت جاناں
اپنی تحریرجورکھی تری تحریر کے ساتھ
ہم کو بھی دیکھنا تھا نور محمد مفتی
آگئے دنیا میں ہم خوبی ء تقصیر کے ساتھ
 
سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی)
رنگ دیدوں، تو وہ تصویر بنا لو گے میاں ؟ اب تو ہونی ہے تو ہونی کو بھی ٹالو گے میاں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو مٹا لو گے میاں
وہ جو مدت سے منقش ہے خیالوں میں مرے
رنگ دیدوں، تو وہ تصویر بنا لو گے میاں ؟
آج حق بات کا پرچار تو کرتے ہو بہت
کل اٹھانا پڑی شمشیر ، اٹھالو گے میاں ؟
ہاتھ پہ اپنے ، کلیجے کو سجا لائے ہو
تم تو روٹھے ہوئے سیاں کو منا لو گے میاں
آسماں کیسے نہ پھر آپ کے تابع ہوگا
جب ستاروں پہ کمند آپ ہی ڈالو گے میاں
تم چھپا کر بڑا پن تو دکھا سکتے ہو
ایک الزام کو تم کتنا اُچھالو گے میاں
یاد منہ زور خیالوں سے بھرا ریلا ہے
کیسے موجوں کو سمندر سے نکالو گے میاں
کیسے تعبیر کی صورت میں ڈھلا ہے مفتی
تم تو کہتے تھے کہ یہ خواب چھپا لو گے میاں
 
سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی)
دشمن کی مرے اتنی تو اوقات نہیں ہے تنہا ہے اکیلا ہے ، کوئی ساتھ نہیں ہے
یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی بات نہیں ہے
میں قتل ہوا ہوں تو کسی اپنے کے ہاتھوں
دشمن کی مرے اتنی تو اوقات نہیں ہے
یہ آنکھ بھی اب آنکھ ملاتی نہیں مجھ سے
مدت ہوئی دل سے بھی مری بات نہیں ہے
دنیا کو مری رخصت ِ دنیا کی خبر ہے
حیرت ہے کہ تو واقف حالات نہیں ہے
یہ دوستی برسوں کے تعلق کا ثمر ہے
یہ کوئی اچانک کی ملاقات نہیں ہے
ہم داعی ء الفت ہیں پیمبر ہیں وفا کے
ہم لوگوں کو اندیشہ ء خطرات نہیں ہے
خود ارض و سماوات کی منزل ہے تُو انساں
منزل تری ارض و سماوات نہیں ہے
اک وقت تھا یہ چاند بھی چلتا تھا مرے ساتھ
اب حال یہ ہے سایہ تلک ساتھ نہیں ہے
فتوی بھی تو دیتا نہیں وہ شعر و ادب میں
مفتی ہے مگر مرد ِ کرامات نہیں ہے
 
سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی)
مجھ کو تو شوقِ شیریں بیاں اب نہیں رہا  مجھ کو تو شوقِ شیریں بیاں اب نہیں رہا
وہ عالمِ جنوں کا سماں اب نہیں رہا
وہ دن تھے تیرے قرب کے لحموں کی تھی اسیر
موسم حسیں یہ دل بھی جواں اب نہیں رہا
کھلنے لگے ہیں سوچ کے غنچے بہار میں
راہوں میں میری دورِ خزاں اب نہیں رہا
اب جل چکے ہیں آنکھ کی مستی کے سلسلے
بکھری پڑی ہے راکھ، دھواں اب نہیں رہا
ہر سمت دیکھے موت کے قدموں کے ہیں نشاں
اس زندگی کا مجھ کو گماں اب نہیں رہا
وشمہ وہ میرے درد کا درماں بھی کیا بنے
آنکھوں میں تشنگی کا نشاں اب نہیں رہا
وشمہ خان وشمہ
تیری گلیوں کے جو تنکے کا سہارا ہوئی میں  تیری گلیوں کے جو تنکے کا سہارا ہوئی میں
تب کہیں تیری نگاہوں کو گوارا ہوئی میں
آیا جب ہوش میں دریا تو کھلی آنکھ مری
اور کسی ڈوبتی کشتی کا کنارا ہوئی میں
اس کے ہوتے ہوئے قسمت نے کہاں جاگنا تھا
چاند ڈوبا تو تری آنکھ کا تارا ہوئی میں
زندہ رہنے کا مصمم تھا ارادہ میرا
غم کی بانہوں سے گری ٹوٹ کے پارہ ہوئی میں
توُ تو اغیار کے ہاتھو ں میں مجھے چھوڑ گیا
ہجر کی آگ میں جل جل کے شرارہ ہوئی میں
اپنی ہی آنکھ سے گرتے ہوئے دیکھا خود کو
وشمہ جب سوز و شقادت کا نظارہ ہوئی میں
وشمہ خان وشمہ
بگڑے ہوئے حالات میں بے نام و نشاں ہوں بگڑے ہوئے حالات میں بے نام و نشاں ہوں
اپنے ہی مقدر کی بہاروں میں خزاں ہوں
نفرت کی نگاہوں سے مجھے تیر نہ مارو
الفت کی زمینوں پہ ابھی رقص کناں ہوں
توں وقت کی آنکھوں کا مری جان اجالا
اب حال ہے یہ بجھتی چراغوں کا دھواں ہوں
چمکا ہے ہمشہ ہی مری آنکھ کا شیشہ
میں وقت کی آنکھوں میں محبت کا نشاں ہوں
مل جائے گا اک روز ترا عشق جزیرہ
ہے ختم سفر جانبِ منزل میں رواں ہوں
کیوں آنکھوں سے میری یہ اداسی نہیں جاتی
کیوں وقت کے دربار پہ میں نوحہ خواں ہوں
سہمے ہوئے منظر میں مری راہ میں وشمہ
حالات پہ شاہد میں ابھی بارِ گراں ہوں
وشمہ خان وشمہ
ہر اک طرح سے خسارہ ہوا تو تیرا ہوا ہر اک طرح سے خسارہ ہوا تو تیرا ہوا
ہمارے بن بھی گزارا ہوا تو تیرا ہوا
غرور کون کرے ہم سے کج نگاہوں سے
غرور ہم کو گوارا ہوا تو تیرا ہوا
ہمیں کسی سے شکایت نہیں سرِ محفل
ہمیں نظر سے اشارا ہوا تو تیرا ہوا
بھنور بھنور رہے ہیں ہم تو موج موج میں ہیں
ستم ظریف کنارہ ہوا تو تیرا ہوا
ہمارے چاند کی آنکھوں میں روشنی ہے مگر
غروب آج ستارا ہوا تو تیرا ہوا
ہمارے خواب میں رخشاں تھے پیار کے جگنو
دیارِ حُسن نظارہ ہوا تو تیرا ہوا
کسی کے پیار میں کھویا جہان اے وشمہ
گلی گلی میں خسارہ ہوا تو تیرا ہوا
وشمہ خان وشمہ
تمنا باقی ہے تُجھے حلال چوم نے کی تمنا دل میں باقی ہے
تو مل جائیگا پھر سےمجھے یہ اُمید دل میں باقی ہے
وہ جو عشق تھا میرا تجھ سے
وہ اب بھی کہیں میرے دِل میں باقی ہے
تُجھے عشق ہو تیرے جیسے شخص سے
پھر میں کہوں تیرے دل میں محبت اب بھی باقی ہے
تو خوبصورت دریا ہے تو ٹھنڈائی ہوا ک جھونکا ہے
یہ یاد رکھ تیری جیسے دُنیا میں اور بھی باقی ہیں
تو ایک تو نہیں جس کی چھاؤں ٹھنڈی ہے
اس جنگل میں اور بھی درخت باقی ہیں
قلبِ مومن
جس نے اس دور میں ظالم کی اطاعت کی ہے جس نے اس دور میں ظالم کی اطاعت کی ہے
اپنی تہزیب و تمدن سےبغاوت کی ہے
میرا ایمان چمکتا ہے ستارہ بن کر
جب بھی قرآن کی راتوں کو تلاوت کی ہے
مجھ کو دنیا کی محبت سے بھلا کیا لینا
میں نے سردار مدینہ پہ قناعت کی ہے
میری آنکھوں میں بسا بیٹھے ہیں اپنی ہستی
تیرے خوابوں پہ اگر میں نے حکومت کی ہے
میری نظروں کی وہ اب تاب نہیں لا پائی
تیری تصویر نے گر کوئی شکایت کی ہے
اک ترے پیار کی خاطر ہوں میں زندہ وشمہ
ساری دنیا سے مگر میں نے بغاوت کی ہے
وشمہ خان وشمہ
ک‏رسی وہ باتوں کو اپنی بھلا کیوں نہ بھولیں
جو دولت سے رشتہ فقط جوڑتے ہیں
کہاں کے ہیں وعدے کہاں دین انکا
جو کرسی کی خاطر وطن توڑتے ہیں
سیدہ ایلیا زھرہ
جھکتا نہیں امیر کی چوکھٹ کے سامنے جھکتا نہیں امیر کی چوکھٹ کے سامنے
کتنا انا پرست ہے فنکار آج کا
وشمہ خان وشمہ