قیدےتنہائی قیدےتنہائی میں چھوڑدیا اس شخص نے
جس شخص پے خود سے بڑھ کےمان تھا زیبا
zeba qazi
آئینے کے سامنے پھر آئینے کے سامنے آج میری گفتگو رھی
اپنے عکس میں تجھے پانے کی جستجو رھی
میں خود کو ڈھونڈ لیتا مگر تیری تلاش تھی
وہ جو میرے ساتھ تھی ویرانی وہی روبرو رھی
آنکھوں میں کھو گئی تھی وہ صورت ڈھونڈتا رہا
اور وہ جو چہرے پہ تھی حیرانی وہی ھو بہؤ رھی
پھر سے آندھیوں کا شور تھا میرے اطراف میں
اور وہ جو گرد تھی جمی ھوئی وہی چار سؤ رھی
SUNDER KHAN
اب تو یاد آتی ہے اسکی روز اب تو یاد آتی ہے اسکی روز
لگتا تھا نہیں جدا ہوگا کبھی
وہ اب ہمارا نہیں رہا کہا
چھوڑ گیا اکیلا ہمیں یہاں
یادوں میں بیٹھے رہتے ہے
اب خوابوں میں آتے ہے کبھی کبھی
وشمہ خان وشمہ
لیۓ پھرتے ہیں دِل کا بوجھ دِل پر ایک مدُت سے لیۓ پھرتے ہیں دِل کا بوجھ دِل پر ایک مدُت سے
کہ ہم اوڑھے ہوۓ ہیں غم کی چادر ایک مدُت سے
ہم اپنے خواب جانے کِس گلی میں چھوڑ آۓ تھے
ہوۓ ہیں رتجگے اپنا مقدر ایک مدُت سے
کہا ہے آپ سے کِس نے کہ ہم صحرا گذیدہ ہیں ؟
چھپا رکھا ہے آ نکھوں میں سمندر ایک مدُت سے
نچوڑی پھوُل سے چہروں کی ساری تازگی کِس نے؟
صفِ ماتم بچھایٔ کِس نے گھر گھر ایک مدُت سے
کبھی اے کاش کھل کے ابر دھرتی پر برس جاۓ
لگی ہے پیاس کھیتوں کو برابر ایک مدُت سے
تجھے جانِ تمنا جب سے اِس دِل میں بسایا ہے
مجھے لگتا ہے بیگانہ مِرا گھر ایک مدُت سے
نجانے کِس کی نظرِ بد نے کی ہے چاندنی میلی
نہیں پھر چاند نے دیکھا پلٹ کر ایک مدُت سے
انا کیا چیز ہوتی ہے یہ کِس کو یاد ہے عذراؔ
جھکا رکھا ہے اُن کے سامنے سر ایک مدُت سے
 
Azra Naz
تیر ی رفاقتوں کے سلسلے بھی کچھ عجیب تھے تیر ی رفاقتوں کے سلسلے بھی کچھ عجیب تھے
ہم نہیں لکی ! ہمارے دشمن خوش نصیب تھے
چند ہی ملاقاتوں میں لوٹ لیاگھر میرا
ُاس کے اپنے تھے مگر میرے رقیب تھے
جنگ لڑنے کا عہد تو دونوں سے کیا تھا
بس ُاس نے مان لی ہار - اور مجھ پے چلے سب تیر تھے
میرا ضمیر وفا کر بھی مطمعین نہیں تھا لکی
وہ لوگ بیوفا ہوتے ہوئے بھی امین تھے
ُاس کے ہاتھوں مجھے مل گیا میرے گناہوں کا صلہ شاید
ہمیں دکھ دینے والے بھی خدا کے کتنے قریب تھے
میرے چہرے پے موت کی پرچھائیاں صاف نظر آتی ہیں
مجھے زندہ تسلیم کرنے والے بھی کتنے شریف تھے
 
AF(Lucky)
اک مان ٹوٹا ہیں بس اور کچھ نہیں اک مان ٹوٹا ہیں بس اور کچھ نہیں
رشتوں سے ایمان
چھوٹا ہیں بس اور کچھ نہیں
پھولوں کا گلدان
ٹوٹا ہیں بس اور کچھ نہیں
دعاوں سے اک انسان
روٹھا ہیں بس اور کچھ نہیں
ہاتھوں سے اک ہاتھ
چھوٹا ہیں بس اور کچھ نہیں
فلک کو دیکھ کر اب
کوئی روتا ہیں بس اور کچھ نہیں
آنسو پلکوں تک آتا ہیں اور
کہیں کھوں جاتا ہیں بس اور کچھ نہیں
کوئی لفظ محبت لکھ لکھ کر
مٹاتا ہیں بس اور کچھ نہیں
صحرا میں جام پایا اور
منہ تک لا کرکوئی
گراتا ہیں بس اور کچھ نہیں
مٹی سے گھر بنایا تھا کبھی
اور مٹی میں کوئی
ملاتا ہیں بس اور کچھ نہیں
دل میں جلتے ُامید کے دیے
کوئی بھجاتا ہیں بس اور کچھ نہیں
موت سے جو ڈرتا تھا کبھی
آج موت کو دیکھ کر کوئی
بانہیں پھلاتا ہیں بس اور کچھ نہیں
AF(Lucky)
اگر کبھی میری اذیتوں کو سمجھ سکے اگر کبھی میری اذیتوں کو سمجھ سکے
تو تم گزرے وقت کو بہت پھچتاؤں گئے
اور اگر کبھی نا سمجھ سکے تو میری جان
تم آہستہ آہستہمجھے بھول جاؤں گئے
میرے الفاط تم سے تمہیں تک ہیں لکی
محسوس کروں تو موم کی طرح پگھل جاؤں گئے
میری بات لمبی اور ادھوری کہانی ہی سہی
فرصت سے پڑھوں تو اپنی انا سے نکل آؤں گئے
کیوں مبلوس کر لیا میرے قلم نے کفن
دھیان تو دو - اپنے ہی ہاتھ میں زہر پاؤں گئے
میری خامشی میں انجانی وحشتیں ہیں بہت
سن سکو تو پانی میں بھی جل جاؤں گئے
AF(Lucky)
عمر کٹ رہی ہےجدائی کےغم میں عمر کٹ رہی ہےجدائی کےغم میں
مگر آنکھوں کوکرتا نہیں پرنم میں
نہ جانےکب اشعارکی آمدہونےلگے
سدا جیب میں رکھتاہوں قلم میں
زیست کی الجھنوں میں الجھ کررہ گیا
ورنہ تجھ سےملتا آکر صنم میں
ہر دروازےپہ دستک دے کردیکھ لیا
یہاں کوئی کام نہیں آتا گردش ایام میں
 
M.ASGHAR MIRPURI
آج ہی وصل ہوئی امید سے یوں آج ہی وصل ہوئی امید سے یوں
پھر گیا اپنے عہد و وفا سے یوں
معلوم ہوتا تیری جفا سے یوں
نہ الجھتی تیری نگاؤں سے یوں
یونہی خفا ہو جائے قسمت سے یوں
لپٹی ہوئی آس تھی تجھ سے یوں
وشمہ خان وشمہ
یہ سال بھی گزر جائے گا گزشتہ سالوں کی طرح پھر دسمبر آگیا
یہ سال بھی گزر جائے گا
گزشتہ سالوں کی طرح
اے میرے دوست تو پریشاں کیوں ہے
اس سا ل بھی وہ نہ ملا گزشتہ سالوں کی طرح
گزرا ہوا وقت حقیقت تھا یا خواب تھا
یا میرے لیے وقت کا انصاف تھا
یہ سال بھی گزر جائے گا
گزشتہ سالوں کی طرح
aik banda
درداں دی پنڈھ چائی پھرداہاں درداں دی پنڈھ چائی پھردا ہاں
غماں دا ساز وجائی پھردا ہاں
مینوں اک رانی دی تلاش اے
جنہوں دین لئی شہنشاہی پھرداہاں
مینوں پیار محبت دی تلاش اے
دولت نوں میں ٹھکرائی پھرداہاں
کوئی اینہاں تے لون نا مل دیوے
اپنےدل دے پھٹ چھپائی پھرداہاں
ASGHAR KALYAL
یوں ٹوٹ کر تو خود کو بکھرنے نہ دیں گے ہم یوں ٹوٹ کر تو خود کو بکھرنے نہ دیں گے ہم
بے موت اپنے آپ کو مرنے نہ دیں گے ہم
پھر سے کیا ہے عہد کہ اب دِل کے شہر میں
یادوں کے کارواں کو ٹھہرنے نہ دیں گے ہم
اے دِل پرایٔ آگ میں جلنا بہت ہوا
اب اور کا کیا تجھے بھرنے نہ دیں گے ہم
اب کھل چکے ہیں ہم پہ سبھی آگہی کے در
خود کو کِسی کے جبر سے ڈرنے نہ دیں گے ہم
پتھر کی ہو نہ جایںٔ یہ آنکھیں بھی ایک دِن
دریا اِن آ نسوؤں کا اُترنے نہ دیں گے ہم
سُن اے امیرِ شہر ترا دور اب گیا
جو آج تک کیا تجھے کرنے نہ دیں گے ہم
مدُت کے بعد آپ سے ملنا ہوا نصیب
اِس پل کو روک لیں گے گذرنے نہ دیں گے ہم
عذراؔ بدلنے ہوں گے ہمیں اِسکے خدو خال
چہرا غمِ جفا کا نِکھرنے نہ دیں گے ہم
Azra Naz
جس یار دےاگےاسی دل اپناہار چھڈیا جس یار دے اگےاسی دل اپنا ہار چھڈیا
اوس سجن جیوندے جی سانوں مارچھڈیا
سی سدا یار دیاں چنگیاں گلاں یادرکھیاں
آودھیاں براہیاں ںوں دلوں وثار چھڈیا
موقعہ ملے تے کدے سانوں وی آزمالینا
اسی مرکے وی کدے نئیں اپنا یار چھڈیا
پہلاں خود میرا قتل کر کےفیر سچاہون لئی
پا میری لاش دے گلے پھلاں دا ہارچھڈیا
عشق ہوراں کسےنوں آر کسےنوں پار
کسےنوں خوارکرکہ ڈوب وچکار چھڈیا
ASGHAR KALYAL
دل کا بل سے گہرا ناطہ ہے دل کا بل سے گہرا ناطہ ہے
میرا تجھ سے بس اتنا ناطہ ہے
زندگی سے نکال دو اس کانٹے کو
کانٹوں میں یہ نوکیلا کانٹا ہے
سب رشتوں میں یہ نازک رشتہ ہے
جس کا ٹوٹنا بہت بڑا المیہ ہے
یہ رشتہ بھی کیسا رشتہ ہے
قدم قدم پر ٹوٹنے کا بس خدشہ ہے
شادی کرنا ایک مشکل مسئلہ ہے
جسے نبھانا اور بھی مشکل مرحلہ ہے
زندگی بس ایک مشکل فلسفہ ہے
جسے سمجھنا بس ایک معمہ ہے
زندگی صبر و حوصلہ کا نام ہے پُرکی
محنت اور کوشش کے سوا باقی سب افسانہ ہے
 
m.hassan
میری ذات اپنی ہی تلاش کرتی ہے جدائی پے تیری
ان آنکھوں میں آنسو تو نہیں آئے
مگر میرے دل کی ویرانی
بین کرتی ہے
میری سوچیں صبح کو نکلتی ہیں
اک لمبی مسافیت پر
اور رات دیر تک
واپس نہیں آتی
یہ شاید تجھے تلاش کرتی ہیں
یہ اک اک دن کیا
یہ تو تیرے بغیر بیتے
ایک ایک لمحے کی بھی بات کرتی ہیں
ان کا پاگل پن تو دیکھ
تجھ سے دور
ہر سانس کو شمار کرتی ہیں
میرے اندر کچھ جل رہا ہو جیسے
اک لاوا پک رہا ہو جیسے
میرے اندر اب
اک تلخی آداب کرتی ہے
مجھے یوں اجڑا دیکھ کر
بار بار تنہائی سلام کرتی ہے
تیرے یوں چھوڑ جانے سے
یوں تو کچھ نہیں بدلا بس
اب میری ذات اپنی ہی تلاش کرتی ہے
AF(Lucky)
محبت کا پل میں گلہ گھونٹ دیا ُاس نے اپنے ، اپنوں کے کہنے پے لکی
میرے اپنوں کو پل میں چھوڑ دیا
میں اب آس کا دیا کس طرح جلاؤں
ُاس نے میری محبت کا پل میں گلہ گھونٹ دیا
AF(Lucky)
وہ اک جھونکا خوشبو کا تھا اب کچھ یاد نہیں وہ اک جھونکا خوشبو کا تھا اب کچھ یاد نہیں
ایک چہرہ حسین سا تھا اب کچھ یاد نہیں
اک تعلق تھا اس سے جان و قلب کا
سلسلہ پیار کا تھا اب کچھ یاد نہیں
اوجل ہو گئے ہیں اس کے خدوخال
اک حسین خواب سا تھا اب کچھ یاد نہیں
رہتا تھا وہ آنکھوں میں آنسو بن کر
بہ گیا ہے نگاہوں سے اب کچھ یاد نہیں
بن گیا ہے فسانہ ناکام الفت کا
اس کا ملنا اک اتفاق تھا اب کچھ یاد نہیں
Jamil Hashmi
گو مرے پاس رہی پھول میں خوشبو کی طرح گو مرے پاس رہی پھول میں خوشبو کی طرح
کچھ نہ مانگا تری مخمور نگاہوں سے کبھی
یہ الگ بات کہ منزل کو کبھی پا نہ سکا
میں بھی گزرا تھا انھی پیار کی راہوں سے کبھی
dr.zahid sheikh
تری آنکھوں کے موسم کیا کبھی بھی نم نہیں ہوں گے ہمیں آنکھوں سے ٹپکے آنسوؤں کے غم نہیں ہوں گے
تری یادوں کی سیپوں میں یہ موتی کم نہیں ہوں گے
ہمارے دم سے روشن ہیں ستارے آرزوؤں کے
کرے گی یاد دنیا جب جہاں میں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے درد و غم کا کچھ مداوا ہو سکے شاید
تری آنکھوں کے موسم کیا کبھی بھی نم نہیں ہوں گے
نشاط زیست ہو اور التفات دوست بھی ، کب تک ؟
یہ ساز غم نہیں ہیں جو کبھی مدھم نہیں ہوں گے
گلہ زاہد کریں کیوں ہم کسی کی بے وفائی کا
رہے گا یاد بھی کیسے جو اس کے غم نہیں ہوں گے
dr.zahid sheikh
جنھیں تالے لگے ماضی کے بجھا سا دل لیے اس کارواں کو ڈھونڈتا ہے کیوں
وہ کب کا جا چکا اب راستوں کو دیکھتا ہے کیوں
نہ گزرے گا یہاں سے قافلہ بچھڑا ہوا تیرا
پریشاں حال بیٹھا آج اس کو سوچتا ہے کیوں
چمن سے جو بچھڑ جائے بکھر جاتا ہے وہ غنچہ
بچھڑ کے آشیاں سے آشیاں کو ڈھونڈتا ہے کیوں
پڑے پیروں میں چھالے پھر بھی منزل نہ ملی تجھ کو
نہیں جس کا پتا پھر وہ پہیلی بوجھتا ہے کیوں
وہ بیتے دن یہاں اب یاد بن کے رہ گئے زاہد
جنھیں تالے لگے ماضی کے ان میں جھانکتا ہے کیوں
dr.zahid sheikh