اپنی تصویر، آواز اور نام دیں ’50 پاؤنڈ‘ لیں۔۔۔ چینی کمپنی کی انوکھی آفر سے بچنا ’مشکل‘

ٹیمو ایک چینی ملکیت والی آن لائن مارکیٹ ہے جسے 2022 میں امریکہ اور گزشتہ سال برطانیہ میں لانچ کیا گیا تھا۔اسے انتہائی سستے داموں سامان فروخت کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔
ٹیمو
Getty Images

آن لائن خرید و فروخت کے لیے موجود ویب سائٹس اور بڑی کمپنیز کی جانب سے اکثر اس طرح کے اشتہارات تو سامنے آتے ہی ہیں کہ آپ اپنی تیار کردہ اشیا ہماری معاونت یا مدد سے فروخت کر کے پیسے کما سکتے ہیں یا یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی بڑی ویب سائٹس کی جانب سے جاب کی آفر کی جاتی ہے اور اچھی تنخواہ کی آفر ہوتی ہے۔

مگر کیا آپ نے کبھی ایسا کُچھ سُنا دیکھا یا پڑھا ہے کہ جناب آپ اپنی تمام تر معلومات ہمارے ساتھ شئیر کریں اور ہم سے اس کے بدلے میں 50 پاؤنڈ یعنی تقریباً 18 ہزار پاکستانی روپے لیے لیں؟

ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ایسا کس نے کہا۔ ایک چینی آن لائن کاروباری کمپنی ’ٹیمو‘ کی ایک آفر کے بارے میں قانونی اور صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’ای ریٹیلر ٹیمو کی جانب سے نقد رقم دینے پر تشویش ہے، یہ ممکنہ طور پر ایک بڑے ’مسئلے‘ کو جنم دی سکتا ہے۔‘

ڈیٹا ریگولیٹر کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے خدشات پر غور کر رہے ہیں۔

اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل میں ٹیمو نے کہا کیا؟ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ٹیمو کی ایک تشہیری مہم میں حصہ لینے والوں کو 50 پاؤنڈ تک ملتے ہیں لیکن انھیں ذاتی ڈیٹا خاصی تعداد میں مستقل طور پر اس کمپنی کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔

یہ گلے شکوے تو ایک جانب مگر ٹیمو کا اصرار ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ معیاری صنعتی عمل ہے اور اس میں بُرا ہی کیا ہے۔

ٹیمو ایک چینی ملکیت والی آن لائن مارکیٹ ہے جسے 2022 میں امریکہ اور گزشتہ سال برطانیہ میں لانچ کیا گیا تھا۔اسے انتہائی سستے داموں سامان فروخت کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔

لیکن اسے سیاست دانوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے اور امریکی حکومت کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹیمو پر تیار کی جانے والی مصنوعات جبری مشقت سے تیار کی گئی ہوں گی۔

ٹیمو کی یہ مہم ہے کیا؟

ٹیمو کی جانب سے نئے صارفین کو شیئر ایبل لنک کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے لوگوں کو سائن اپ کرنے کے لیے 24 گھنٹے کا وقت دیا گیا ہے تاکہ ان میں سے ہر ایک کو 40 سے 50 پاؤنڈ کے درمیان نقد انعام مل سکے جو ان کے پے پال اکاؤنٹس یا ٹیمو سٹور کریڈٹ میں ادا کیا جاتا ہے۔

موجودہ ٹیمو اکاؤنٹ ہولڈرز بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے انعامات کے لیے کُچھ زیادہ کرنا ہوگا۔

تشہیر سے فائدہ اٹھانے کے خواہشمند ہزاروں صارفین کو سوشل میڈیا سائٹس پر لنکس پوسٹ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

سب سے زیادہ جانچ پڑتال حاصل کرنے والے سیکشن میں کہا گیا ہے کہ ’لاگو قانون کے ذریعہ ممنوع حد کے علاوہ‘، شرکا کمپنی کو اشتہارات یا تشہیری مقاصد کے لیے اپنی ’تصویر، نام، آواز، اپنی رائے، بیانات اور ریاست سے متعلق معلومات‘ کو استعمال کرنے اور شائع کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ دنیا بھر کے کسی بھی میڈیا میں سامنے آسکتی ہیں اور یہ ’مستقل طور پر ہو سکتا ہے‘، یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی جانب سے ایک مرتبہ اپنی معلومات دے دیے جانے کے بعد ان کی واپسی کی کوئی اُمید نہیں ہو گی۔ یا سادی زبان میں آپ کے ٹیمو کو دی جانے والی معلومات کی کوئی ایکسپائیری ڈیٹ نہیں۔

تیزی سے بڑھتی ہوئی چینی کمپنی نے بی بی سی کو ایک بیان میں بتایا کہ ’ٹیمو صارفین کی معلومات صرف اپنی سروس کی فراہمی اور صارفین کے تجربے کو بہتر بنانے کے لیے جمع کرتا ہے۔‘

ٹیمو کے ایک ترجمان نے کہا کہ بہت سی کمپنیاں اور مختلف صنعتوں میں تحفے دینا عام بات ہے،اس کے ای کامرس حریف شین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک فرم ’تقریباً اسی طرح کی شرائط و ضوابط‘ کے ساتھ اپنی تشہیری مہم چلا رہی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر یہ معیاری شرائط و ضوابط خبروں کے قابل ہیں، تو ہم آپ پر زور دیتے ہیں کہ آپ منصفانہ رہیں۔

ٹیمو
Getty Images

حساس ڈیٹا

تاہم ماہرین نے ٹیمو کی اس تشہیری مہم کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔

لیزا ویب کا کہنا تھا کہ ’ٹیمو کو اپنی ’آواز‘ اور ’سوانح حیات کی معلومات‘ استعمال کرنے کی اجازت دینے سے اس کے صارفین پریشان ہوں گے۔

یہ آفرز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں جن میں نوجوان بھی شامل ہیں لیکن صارفین کو یقینی طور پر اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ نقد رقم کے بدلے میں اس حساس ڈیٹا کو دینے میں آسانی محسوس کر رہے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگرچہ ٹیمو ڈیٹا کو حد سے زیادہ جمع کرنے والا پہلا پلیٹ فارم نہیں لیکن اس بارے میں یقینی طور پر سوالیہ نشان موجود ہیں کہ کیا ذاتی ڈیٹا کو ’دنیا بھر‘ میں استعمال کرنے کی اجازت کی درخواست کرنا کسی بھی صورت میں متناسب ہے۔

قانونی فرم پنسینٹ میسن کے ڈیٹا پروٹیکشن پارٹنر جوناتھن کرسوپ نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ یہ ایسا لفظ نہیں جسے انھوں نے پہلے عام طور پر استعمال ہوتے دیکھا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ برطانیہ کے ڈیٹا پروٹیکشن قوانین کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے جس کے تحت صارفین کی رضامندی کو آزادانہ طور پر دینے، مخصوص کرنے اور واپس لینے کے قابل ہونا ضروری ہے تاکہ اسے ڈیٹا پروسیسنگ کی وجہ کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ ہمیشہ پابندی نہیں ہوتی لیکن خدمات کی فراہمی کو ذاتی ڈیٹا کے استعمال کی رضامندی سے مشروط کرنا اکثر اس بنیاد پر غیر قانونی ہو گا کہ صارف کو اس رضامندی کی فراہمی میں آزادانہ انتخاب کے قابل نہیں سمجھا جاسکتا ہے، خاص طور پر جہاں متعلقہ معلومات حساس ہیں، جیسے بائیو میٹرک ڈیٹا۔

انھوں نے مزید کہا کہ وائس ڈیٹا کا استعمال، جسے برطانیہ کے جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (جی ڈی پی آر) کے تحت بائیومیٹرک ڈیٹا سمجھا جاتا ہے، برطانیہ میں قانونی استعمال اور رضامندی کے لیے زیادہ حد ہے کیونکہ اس میں زیادہ خطرات ہیں۔

ڈیٹا ریگولیٹر انفارمیشن کمشنر کے دفتر نے کہا کہ وہ ’ٹیمو کے بارے میں رپورٹس سے آگاہ ہیں‘ اور سامنے آنے والے ’خدشات‘ پر غور کر رہے ہیں۔

ایک بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’تنظیموں کو اس بارے میں واضح اور شفاف ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کی ذاتی معلومات کیسے اور کیوں جمع کرتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ لوگ مکمل طور پر باخبر رہتے ہوئے فیصلہ کرسکیں کہ آیا ان کا ڈیٹا کسی کے حوالے کیا جانا چاہیے یا نہیں۔

یونیورسٹی آف برسٹل میں سائبر سکیورٹی کے پروفیسر اویس رشید نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ صارفین سے بہت زیادہ ڈیٹا جمع کرنے والی ایپس عام ہو چکی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ نقد مراعات یا طویل، بعض اوقات ’ناقابل فہم‘ رازداری کی پالیسیاں اور شرائط، یہ فیصلہ کرتے وقت فیصلہ زیادہ مشکل اور غیر متوازن بنا سکتی ہیں کہ آیا ہمیں انفرادی طور پر کسی سروس کو استعمال کرنے کے لیے اپنے ڈیٹا سے حصہ لینا چاہیے یا نہیں۔

انھوں نے کہا کہ جب بھی اس طرح کے معاہدے کی پیشکش کی جاتی ہے تو ہمیں ہمیشہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کا نتیجہ کیا ہے، اور ہمارا کتنا ڈیٹا جمع کیا جائے گا، اسے کس طرح استعمال کیا جائے گا اور کیا ہم اس سے مطمئن ہیں؟

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.