پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات، کمیٹی عمران خان کو قائل کر سکے گی؟

image

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے پارٹی کے سینیئر رہنماؤں عمر ایوب، علی امین گنڈاپور اور شبلی فراز پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی ہے اور ان کے علاوہ کسی کو بات چیت کا مینڈیٹ نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کے مطابق یہ کمیٹی ایک برس سے زائد عرصہ پہلے قائم کی گئی تھی لیکن ابھی تک بات چیت شروع نہیں ہوئی۔

پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہوتے ہیں یا نہیں، یہ بات ایک طرف لیکن جب سے عمران خان کی طرف سے یہ نام سامنے آئے ہیں سیاسی حلقوں میں سوال گردش کر رہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ گفت و شنید کے لیے قائم کی گئی اس کمیٹی کے اراکین تحریک انصاف سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں۔

اس سوال کا پس منظر اس کمیٹی کے اراکین کا ماضی، حال اور اس سے منسلک نسبتیں ہیں۔   

عمر ایوب خان جو اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور عمران خان سے قریب ہونے کے ناتے تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں، وہ نہ صرف پاکستان کے پہلے فوجی صدر ایوب خان کے پوتے اور فوج کے ریٹائرڈ کیپٹن گوہر ایوب کے بیٹے ہیں بلکہ انہوں نے اپنی سیاست کی ابتدا بھی فوجی دور میں ہی کی تھی جب جنرل پرویز مشرف پاکستان کے حکمراں تھے۔

عمر ایوب کو سیاست میں آتے ہی وفاقی کابینہ کا حصہ بنا لیا گیا تھا اور بعد ازاں وہ فوجی حکومت کے اہم رکن رہے۔

انہوں نے فوج سے اپنا تعلق کبھی نہیں چھپایا اور ہمیشہ اس بارے میں مثبت بات کی۔

کمیٹی کے دوسرے رکن علی امین گنڈاپور جو کہ اس وقت خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کے جانثار ساتھی بھی ہیں، اگرچہ اپنی شعلہ بیانی اور عمران خان کو ‘فیلڈ فورس‘ فراہم کرنے کے لیے شہرت رکھتے ہیں لیکن حال ہی میں ان کی پشاور کور میں کور کمانڈر سے ملاقاتیں خبروں اور تبصروں کی زینت بنتی رہی ہیں۔

ان کے بارے میں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ نو مئی کے بعد اپنی روپوشی کے دنوں میں پشاور کنٹونمنٹ کے کمرشل علاقے میں موجود رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے جن افراد کو کمیٹی میں شامل کیا ہے، وہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے کی شہرت نہیں رکھتے (فائل فوٹو: اے ایف پی) اسی طرح شبلی فراز کے بارے میں بھی سیاسی مبصرین یہ رائے رکھتے ہیں کہ ان کا موقف ہمیشہ مقتدرہ کے موقف کے قریب تر ہوتا ہے اور وہ اپنے سیاسی کیریئر میں کبھی بھی کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں گئے۔

پاکستان کی فوج اور سیاست دونوں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ماجد نظامی اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کے مقتدرہ سے تعلقات ایک پہلو ہیں لیکن اس کا دوسرا انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ کیا یہ اراکین عمران خان سے وہ بات منوا سکیں گے جو اسٹیبلشمنٹ ان سے طے کرے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’علی امین گنڈا پور شعلہ بیان مقرر ضرور ہیں لیکن ان کی توپوں کا رخ کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کی طرف نہیں رہا بلکہ یہ ہمیشہ سیاسی جماعتوں کی طرف رہا ہے۔ نو مئی کے بعد ان کی ایک مرتبہ گرفتاری ضرور ہوئی ہے لیکن ان کو ان مشکلات کا سامنا نہیں رہا جو پی ٹی آئی کے کئی دوسرے رہنماؤں کو رہا ہے۔‘

’اسی طرح عمر ایوب کا اسٹیبلشمنٹ سے تیسری نسل کا تعلق ہے۔ اگرچہ گذشتہ دو برس میں ان پر بڑا مشکل مرحلہ آیا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے روپوش رہ کر اپنے مسائل پر توجہ دی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست نہیں کی۔‘

اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات اور ڈپلومیسی کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار طاہر نعیم ملک کے مطابق پی ٹی آئی کمیٹی کے تینوں اراکین کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے ایک حقیقت ہیں۔ یہ تحریک انصاف کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو جیل سے باہر ہیں۔

انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ جہاں ایک طرف عمر ایوب فوجی پس منظر رکھتے ہیں وہیں علی امین گنڈا پور بطور وزیراعلٰی خیبر پختونخوا سکیورٹی اداروں کی قیادت سے رابطے میں ہیں اور اس وقت کے نظام کا ایک حصہ ہیں۔

’جہاں تک شبلی فراز کا تعلق ہے تو نہ صرف یہ کہ فوج ان کو ان کے والد معروف شاعر احمد فراز کی نسبت سے قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے بلکہ ان کے قریبی عزیز جنرل افتخار حسین مشرف دور میں خیبر پختونخوا کے گورنر اور بڑے بھائی کرنل (ریٹائرڈ) سعدی فوج کا اہم حصہ رہے ہیں۔‘

تجزیہ کار ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ اس کمیٹی کے اراکین کی نامزدگی یہ بتاتی ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات میں سنجیدہ ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)تاہم ماجد نظامی کے خیال میں پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس وقت عمران خان کیا سوچ رہے ہیں۔

’عمران خان پہلے بھی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے کئی کمیٹیاں تشکیل دے چکے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ پی ٹی آئی قیادت کے کئی رہنما ایسی کمیٹیوں کا حصہ بننے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ جب معاملہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان آتا ہے تو پھر کوئی ڈیل بن نہیں پاتے یا مذاکرات کامیاب نہیں ہو پاتے۔‘

’ہمارے سامنے شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور پرویز خٹک کی مثال موجود ہے کہ وہ مذاکرات میں اسٹیبلشمنٹ سے، سیاست دانوں سے بات چیت کر کے، چیزیں طے کر کے واپس آ جاتے تھے لیکن انہیں عمران خان سے منظوری نہیں ملتی تھی۔‘

تحریک انصاف حکومت مخالف تحریک چلانے والے نئے اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ اس کمیٹی کے اراکین کی نامزدگی یہ بتاتی ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات میں سنجیدہ ہے اور اس نے ذمہ دار لوگوں کو اس کے لیے منتخب کیا ہے۔

 ’پی ٹی آئی کی طرف سے نامزد کیے گئے تینوں افراد بطور وزیر اعلیٰ اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بطور اپوزیشن لیڈر کے نظام کا حصہ ہیں اور ان کی غیررسمی گفتگو ہر وقت چل رہی ہوتی ہے۔ بالخصوص وزیراعلٰی خیبرپختونخوا کور کمانڈر پشاور سے ہر وقت رابطے میں رہتے ہیں۔‘

تاہم ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ان تینوں افراد کو اسٹیبلشمنٹ سے منسلک کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے جتنے لوگ بھی پی ٹی آئی میں تھے، وہ نو مئی کے بعد پارٹی چھوڑ کر چلے گئے اور اسٹیبلشمنٹ نے کسی ایسے بندے کو پی ٹی آئی میں رہنے ہی نہیں دیا۔

’اس وقت پی ٹی آئی میں جو لوگ ہیں وہ پی ٹی آئی کے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کے نہیں۔‘ 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.