’دنیا کے سب سے تنہا نر درخت‘ کو مادہ ساتھی کی تلاش: ’یہ بے مثال محبت کی لازوال کہانیوں میں سے ایک ہے‘

ای ووڈی ڈائینوسار سے بھی پہلے سے زمین پر موجود ہیں لیکن آج یہ کرہ ارض پر سب سے زیادہ خطرے سے دوچار جانداروں میں سے ایک ہے

آپ میں سے شاید ہی کسی نے ’اینسیفالارٹوس ووڈی‘ (ای ووڈی) درخت کا نام سنا ہو۔ اور اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کیوں کہ کھجور کے پیڑ کی شکل کا یہ درخت اب دنیا سے معدوم یعنی ناپید ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے۔

ای ووڈی کی نسل ڈائینوسار سے بھی پہلے سے زمین پر موجود تھی لیکن آج یہ کرہ ارض پر سب سے زیادہ خطرے سے دوچار جانداروں میں سے ایک ہے۔

دنیا میں اب اس کا صرف ایک ہی قدرتی درخت رہ گیا ہے اور وہ نر ہے۔

اس کے علاوہ دنیا میں موجود اس کے باقی نمونے اس ہی واحد قدرتی درخت کے نر کلون ہیں جس کی وجہ سے اس کی قدرتی تولید ناممکن ہے۔

اب سائنسدانوں نے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل ایٹیلیجینس - اے آئی) کی مدد سے اس کے لیے ایک مادہ ساتھی کی تلاش شروع کردی ہے۔

اس کی تنہائی دور کرنے اور اس کی نسل کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے انگلینڈ کی ساؤتھمپٹن ​​یونیورسٹی کی قیادت میں ایک تحقیقیاتی منصوبہ تخلیق دیا گیا ہے۔

اس منصوبے کے تحت جنوبی افریقہ میں ہزاروں ہیکٹر پر پھیلے جنگلات کو چھانا جا رہا ہے۔ یہ زمین پر وہ واحد مقام ہے جہاں ای ووڈی قدرتی طور پر پایا جاتا تھا۔

ڈاکٹر لورا سینیٹی ایک محقق ہیں اور ان کا تعلق ساؤتھمپٹن ​​یونیورسٹی سے ہے۔ یہ اس منصوبے کی قیادت کر رہی ہیں جو ڈرون اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے مادہ ای ووڈی کی تلاش کر رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں ای ووڈی کی کہانی سے بہت متاثر ہوں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ بے مثال محبت کی لازوال کہانیوں میں سے ایک ہے۔‘

ڈاکٹر لورا سنٹی کو امید ہے کہ کہیں نہ کہیں ای ووڈی کی نسل کی کوئی مادہ ضرور موجود ہوگی۔ ’اگر ہم قدرتی تولید کے ذریعے اس پودے کو معدوم ہونے سے بچا پائے تو یہ یقیناً حیرت انگیز ہوگا۔‘

اس نسل کا واحد درخت سنہ 1895 میں جنوبی افریقہ کے مشرقی ساحل کے قریب اونگوئے جنگل میں پایا گیا تھا جو کہ ایک نر تھا۔

تب سے آج تک اس کا کوئی دوسرا نمونہ نہیں ملا ہے۔ آج دنیا میں موجود ای ووڈی کے تمام نمونے اس ہی مشہور جنگلی درخت کے نر کلون ہیں۔

ڈرون کی مدد سے فضا سے جنگل کی تصاویرلی جاتی ہیں جس کے بعد اے آئی ٹولز کے مدد سے ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔

یہ تحقیقاتی ٹیم اب تک 4,100 ہیکٹر پر پھیلے جنگل کے محض 2 فیصد سے بھی کم علاقے کا جائزہ لے پائی ہے۔

ڈاکٹر سنٹی بتاتی ہیں، ’ہم پودوں کی شناخت کے لیے تصویروں کی شناخت کا الگورتھم استعمال کررہے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ان کی ٹیم پودوں کی تصاویر بنا کر انھیں مختلف ماحولیاتی منظرناموں میں رکھتی ہے تاکہ آے آئی ماڈل کو ان کی پہچان سکھائی جا سکے۔‘

اس سے پہلے کبھی اس جنگل کا مکمل جائزہ نہیں لیا گیا ہے اس لیے حتمی طور پر کہا نہیں جا سکتا کہ ای ووڈی کی نسل کی کوئی مادہ اس جنگل میں موجود ہے یا نہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.