ہماری زد میں کئ خوش خصال آئے ہیں
خموشی ایسی تھی پتھر اچھال آئے ہیں
نہ جانے کیسے بڑھاپے کے مرحلے ہوں گے
ہماری عمر میں ہی سو وبال آئے ہیں
تلاش رزق میں نکلے ہوئے پرندے ہیں
ہوا کے دوش پہ کتنے نڈھال آئے ہیں
ہنر پہ اپنے بھروسہ نہیں ہے کیوں ان کو
نکالنے جو محبت میں فال آئے ہیں
اگر ہمارے عذاب انگلیوں پہ گننے ہیں
حساب کیجے کتنے ملال آئے ہیں
ہوا جو سلسلہ موقوف گفتگو کا غزل
ذرا سی دیر میں کتنے خیال آئے ہیں