Add Poetry

کورونا وائرس

Poet: عمر مجید خان By: عمر مجید خان, Srinagar

دنیا کو قید کر کے خد آزاد پھر رہا
لوگو کو گھروں میں کیا ہوا کچھ نہ پوچھئے

کیا دیکھتا ہوں سناٹا تھا چھایا جیسے
ویراں تھی گلیاں کوچے کچھ نہ پوچھئے

چھینی ہیں کس نےدوستو شہروں کی رونقیں
آئی کہاں سے یہ موجِ بلا کچھ نہ پوچھئے

سب کاروبار بند ہیں سب روزگار بند
سارا غرور خاک ہوا کچھ نہ پوچھئے

راتوں کی نیند ، دن کا سکوں چھن گیا تمام
کس نے یہ سب کا حال کیا کچھ نہ پوچھئے

اندر اندر سے کھاگئی یہ معیشت دنیا کی
پھر کیسے سنبھلے گی دنیا کچھ نہ پوچھئے

ڈاکٹرو نے دن اور رات کو ایک کر دیا
پھر کتنے مریض صحتیاب ہوئے کچھ نہ پوچھئے

سائنس کو بھی کورونا نے بیکار کر دیا
رات و رات کتنی چالیں بدلا کچھ نہ پوچھئے

درحقیقت یہ کچھ اور ہی تھا جو دنیا کھا بیٹھا
دیکھتے ہی دیکھتے کیسے چھایا کچھ نہ پوچھئے

وہ کون سا ہے جرم کہ جس کا ہے یہ صلہ
ہر گھر ہے قید خانہ بنا کچھ نہ پوچھئے

نفرت کی آگ کھا گئی کتنی ہی بستیاں
پھر میڈیا کی چلی جو ہوا کچھ نہ پوچھئے

لوگوں نے جب پہنائی اسے مزہب کی زنجیر
میڈیا نے پھر کیسا چرچا کیا کچھ نہ پوچھئے

سائنس نے اسے توڈنے کو کیا کچھ نا کیا
پھر ویکسین کیسے نہ بنی کچھ نہ پوچھئے

بظاہر اک مرض ہے یہ کورونا وائرس عمر
ہر اک چہرے پہ وحشت ہے کچھ نہ پوچھئے
 

Rate it:
Views: 143
24 Dec, 2022
Related Tags on General Poetry
Load More Tags
More General Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets