شوق کے شہر، تمنا کے ٹھکانے گزرے
رات پھر ذہن سے کچھ خواب پرانے گزرے
چاند جب جھیل میں اتر تو مناظر کی طرح
مجھ کو چھو کر تیرے بازو، تیرے شانے گزرے
جانے کس شخص کے بارے میں پریشان ہو تم
اب ہمیں خود کو بھلائے بھی زمانے گزرے
ہم تو ہر موڑ بچھا آئے تھے دامن اپنا
جانے کس راہ بہاروں کے خزانے گزرے
بجھنے لگتا ہے کسی شمع کے مانند وجود
جب تیری یاد ہواؤں کے بہانے گزرے
منظر شوق وہی ہے تو سفر کیسا تھا
ہم گزر آئے کہ جمشید زمانے گزرے