Add Poetry

شکر خدا کی آج گھڑی اس سفر کی ہے

Poet: امام احمد رضاؔ خان علیہ الرحمۃ الرحمٰن By: Qaddri Razavi, Lahore

شکر خدا کی آج گھڑی اس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے

گرمی ہے تپ ہے درد ہے کلفت سفر کی ہے
نا شکر یہ تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے

کس خاکِ پاک کی تو بنی خاک پاء شفائی
تجھ کو قسم جنابِ مسیحا کے سر کی ہے

آب حیات روح ہے زرقا کی بوند بوند
اکسیر اعظم مس دل خاک در کی ہے

ہم کو اپنے سائے میں آرام ہی سے لائے
حیلے بہانے والوں کو یہ راہ ڈر کی ہے

لٹتے ہیں مارے جاتے ہیں یوں ہی سنا کیے
ہر بار دی وہ امن کہ غیرت حضر کی ہے

وہ دیکھو جگماتی ہے شب اور قمر ابھی
پہروں نہیں کہ بست و چہارم صفر کی ہے

ماہ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے

مَنْ زَارَ تُرْبَتِیْ وَجَبَتْ لَہ' شَفَاعَتِیْ
ان پر درود جن سے نوید ان بشر کی ہے

اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے
اصل مراد حاضری اس پاک در کی ہے

کعبہ کا نام تک نہ لیا طیبہ ہی کہا
پوچھا تھا ہم سے جس نے کہ نہضت کدھر کی ہے

کعبہ بھی ہے انہی کی تجلی کا ایک ظل
روشن انہی کے عکس سے پتلی حجر کی ہے

ہوتے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منیٰ
لولاک والے صاحبی سب تیرے در کی ہے

مولیٰ علی نے واری تیری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خطر کی ہے

صدیق بلکہ غار میں جاں اس پہ دے چکے
اور حفظ جاں تو جان فروض غرر کی ہے

ہاں تو نے ان کو جان انہیں پھیر دی نماز
پر وہ تو کر چکے تھے جو کرنی بشر کی ہے

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

شر خیر شور سور شرر دور نار نور
بشریٰ کہ بارگاہ یہ خیر البشر کی ہے

مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُ وْکَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

بد ہیں مگر انہیں کے ہیں باغی نہیں ہیں ہم
نجدی نہ آئے اس کو یہ منزل خطر کی ہے

تف نجدیت نہ کفر نہ اسلام سب پہ حرف
کافر اِدھر کی ہے نہ اُدھر کی اَدھر کی ہے

حاکم حکیم داد و دوا دیں یہ کچھ نہ دیں
مردود یہ مراد کس آیت خبر کی ہے

شکل بشر میں نور الٰہی اگر نہ ہو
کیا قدر اس خمیرہئ ماؤ مدر کی ہے

نور الٰہ کیا ہے محبت حبیب کی
جس دل میں یہ نہ ہو وہ جگہ خوک و خر کی ہے

ذکر خدا جو ان سے جدا چاہو نجدیو !
واﷲ ذکر حق نہیں کنجی سقر کی ہے

بے ان کے واسطے کے خدا کچھ عطاء کرے
حاشا غلط غلط یہ ہوس بے بصر کی ہے

مقصود یہ ہیں آدم و خلیل و نوح سے
تخم کرم میں ساری کرامت ثمر کی ہے

ان کی نبوت ان کی ابوت ہے سب کو عام
ام البشر عروس انہیں کے پسر کی ہے

ظاہر میں میرے پھول حقیقت میں میرے نخل
اس گل کی یاد میں یہ صدا ابو البشر کی ہے

پہلے ہو ان کی یاد کہ پائے جلا نماز
یہ کہتی ہے اذان جو پچھلے پہر کی ہے

دنیا ، مزار ، حشر جہاں ہیں غفور ہیں
ہر منزل اپنے چاند کی منزل غفر کی ہے

ان پر درود جن کو حجر تک کریں سلام
ان پر سلام جن کو تحیت شجر کی ہے

ان پر درود جن کو کس بیکساں کہیں
ان پر سلام جن کو خبر بے خبر کی ہے

جن و بشر سلام کو حاضر ہیں السلام
یہ بارگاہ مالک جن و بشر کی ہے

شمس و قمر سلام کو حاضر ہی السلام
خوبی انہی کی جوت سے شمس و قمر کی ہے

سب بحر و بر سلام کو حاضر ہیں السلام
تملیک انہی کے نام تو بحر و بر کی ہے

سنگ و شجر سلام کو حاضر ہیں السلام
کلمے سے تر زبان درخت و حجر کی ہے

عرض و اثر سلام کو حاضر ہیں السلام
ملجا یہ بارگاہ دعا و اثر کی ہے

شوریدہ سر سلام کو حاضر ہیں السلام
راحت انہی کے قدموں میں شویدہ سر کی ہے

خستی جگر سلام کو حاضر ہیں السلام
مرہم یہیں کی خاک تو خستہ جگر کی ہے

سب خشک و تر سلام کو حاضر ہیں السلام
یہ جلو گاہ مالک ہر خشک و تر کی ہے

سب کروفر سلام کو حاضر ہیں السلام
ٹوپی یہیں تو خاک پہ ہر کروفر کی ہے

اہل نظر سلام کو حاضر ہیں السلام
یہ گرد ہی تو سرمہئ سب اہل نظر کی ہے

آنسو بہا کے بہہ گئے کالے گناہ کے ڈھیر
ہاتھی ڈوباؤ جھیل یہاں چشم و تر کی ہے

تیری قضاء خلیفہ احکام ذی الجلال
تیری رضا حلیف قضاؤ قدر کی ہے

یہ پیاری پیاری کیاری تیرے خانہ باغ کی
سرد اس کی آب و تاب سے آتش سقر کی ہے

جنت میں آکے نار میں جاتا نہیں کوئی
شکرِ خدا نوید نجات و ظفر کی ہے

مومن ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

دامن کا واسطہ مجھے اس دھوپ سے بچا
مجھ کو تو شاق جاڑوں میں اس دوپہر کی ہے

ماں ، دونوں بھائی ، بیٹے ، بھتیجے ، عزیز ، دوست
سب تجھ کو سونپے مِلک ہی سب تیرے گھر کی ہے

جن جن مرادوں کے لئے احباب نے کہا
پیش خبیر کیا مجھے حاجت خبر کی ہے

فضل خدا سے غیب شہادت ہوا انہیں
اس پر شہادت آیت و وحی و اثر کی ہے

کہنا نہ کہنے والے تھے جب سے تو اطلاع
مولیٰ کو قول و قائل و ہر خشک و تر کی ہے

ان پر کتاب اتری بیاناً لِکُلِ ّ شَیْئٍ
تفصیل جس میں مَا عَبَرُوْ مَا غَبَر کی ہے

آگے رہی عطاء وہ بقدر طلب تو کیا
عادت یہاں امید سے بھی بیشتر کی ہے

بے مانگے دینے والے کی نعمت میں غرق ہیں
مانگے سے جو ملے کسے فہم اس قدر کی ہے

احباب اس سے بڑھ کے تو شاید نہ پائیں عرض
نا کردہ عرض عرض یہ طرزِ دگر کی ہے

دنداں کا نعت خواں ہوں نہ پایاب ہو گی آب
ندی گلے گلے میرے آب گہر کی ہے

دشت حرم میں رہنے دے صیاد اگر تجھے
مٹی عزیز بلبل بے بال و پر کی ہے

یا رب رضاؔ نہ احمد پارینہ ہو کے جائے
یہ بارگاہ تیرے حبیب ابر کی ہے

توفیق دے کہ آگے نہ پیدا ہو خوئے بد
تبدیل کر جو خصلت بد بیشتر کی ہے

آ کچھ سُنا دے عشق کے بولوں میں اے رضاؔ
مشتاق طبع لذت سوز جگر کی ہے

Rate it:
Views: 2375
15 Jun, 2011
More Religious Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets