سلوک یار پہ برہم نہ ہوئے
ہم بھی حیراں ہیں یہ تو ہم نہ ہوئے
تری نظر میں محترم نہ ہوئے
وگرنہ غیر سے تو کم نہ ہوئے
ہماری جان ہی جو لے لیتے
اتنے برے تو ترے غم نہ ہوئے
ان کا احسان بھی جتاتے ہو
جو ترے ہاتھ سے کرم نہ ہوئے
کیا اسی غم میں مر رہا ہے کوئی
کہ مجھ پہ بار کیوں ستم نہ ہوئے
ان کا مقصود جستجو کیا تھا
جو لوگ مائل ارم نہ ہوئے
پھر کیوں وہ ذہن پہ سوار رہے
جو کبھی میرے ہمقدم نہ ہوئے
راہ تو ایک تھی اپنی شاہد
فاصلے طے مگر بہم نہ ہوئے