اک مہرباں ہے مرا
بےخواب تاریک راتوں کی تنہائی میں
درد جب حد سے گزر جاتا ہے
روشنی دور تک نظر آتی نہیں
امید کوئی بھی بر آتی نہیں
اک مہرباں ہے مرا
جس کے نرم سینے میں چھپا کے میں چہرا اپنا
بہا لیتی ہوں چند آنسو
اور کہہ دیتی سب اپنے دکھ سکھ
اور وہ دوست مرا
کرتا ہی نہیں کوئی بھی سوال
کہتا نہیں وہ کچھ بھی مجھ سے
بڑی خاموشی سے
سنتا ہے مرے شکوے سارے
اور اپنی نرم آغوش میں
بہت پیار بڑی نرمی سے
جذب کر لیتا مرے سارے آنسو
بانٹ لیتا ہے وہ سب بوجھ
جو ہیں دل پہ مرے
میرا تکیہ جو مرا ہمراز بھی ہے
میرا تکیہ جو مرا غمخوار بھی ہے