ہمیں تو امیدیں کر گئیں غرق شدن
کبھی کس پہ کبھی کس پہ اعتبار کیا
ملابس چھین لیئے زماں کے فرعونوں نے
اک روٹی کا جو گلی گلی سوال کیا
سبھی مست ہیں اپنی اپنی انا میں لوگ
مجھ غریب پہ کب کس نے احساس کیا
اے خدا اک اور کر لطف اپنا ہم پر تو نفیس
کوئی عمردے، صدیق دے نہیں بڑا تجھ سے سوال کیا۔