نہ جانے کیسے کیسے سراب دیکھے
ان آنکھوں نے ناممکن سے خواب دیکھے
سفر ساحلوں سے بھلا ہم سیکھتے کسسے
ختم لہروں کے ہوتے حساب دیکھے
اک شام جو دھواں سا اٹھ رہا تھا کہیں
بنتے محلوں کو نظروں نے خاک دیکھے
دوش ہواؤں کو نہ دو کے وہ تھم نہ گیئں
سودے اندھیروں سے کرتے چراغ دیکھے
ذکر میرے گناہوں کا تو خدا سے نہ کر
سجدے بوہتوں کے ہوتے خراب دیکھے
الزام وقت کو دیتے ہیں جو کبھی مل نہ سکے
جنہیں کرتے برباد ماہ و سال دیکھے
اک شام آ ہی جاؤ گے یہ منظر بھی ملے
پنچھی میلوں سے مڑہتے ہزار دیکھے