بات ہوتی ہے مگر بات کہاں ہوتی ہے
وہ ملے بھی تو ملاقات کہاں ہوتی ہے
وہ جو رکھتا ہے محبت کے اجالے دل میں
کیا خبر اس کو سیہ رات کہاں ہوتی ہے
اے مری آنکھ کی بینائی مجھے یہ تو بتا
چشم دلدار کی خیرات کہاں ہوتی ہے
سوچتی ہوں کہ محبت کی گذرگاہوں میں
بات ہے بات شروعات کہاں ہوتی ہے
میری شاخوں پہ لچکتے ہوئے پھولوں پہ سدا
خوشبوئے یار کی برسات کہاں ہوتی ہے
دیکھنا ہے تری چالوں کے گھنے جنگل میں
اسپ خواہش کو مرے مات کہاں ہوتی ہے
سب پھرا کرتے ہیں احوال چھپا کرا اپنا
زندگی نامہء حالات کہاں ہوتی ہے
چلتی رہتی ہوں میں وشمہ مجھے معلوم نہیں
دن کہاں ہوتا ہے اور رات کہاں ہوتی ہے