تم خاص پِلاتے تھے، جو عام نہیں مِلتا
ہاں جام تو مِلتا ہے، وہ جام نہیں مِلتا
گلیوں میں بھٹکتا ہے، بد راہ ہے دل ایسا
اِس صبح کے بُھولے کو، گھر شام نہیں مِلتا
کچھ عشق کرو صاحب، کچھ نام دھرو صاحب
گھر بیٹھنے والوں کو الزام نہیں مِلتا
پڑھتے ہیں کتابوں میں، سُنتے ہیں خطابوں میں
ہم کو تو حرم میں بھی اسلام نہیں مِلتا
ہم سوچنے والوں کی مشکل ہے مُنیبؔ ایسی
آرام سے بیٹھیں تو آرام نہیں مِلتا