جب سے کرونا نے طوفان مچا رکھا ہے
موت کے خوف نے بس گھر میں بٹھا رکھا ہے
کس طرح جان سکیں گے ہم کسی کا باطن؟
نقاب ہر شخص نے چہرے پہ سجا رکھا ہے
فیس بک، واٹس ایپ، ٹک ٹاک ہو یا انسٹا ہو
سب نے کورونا کو سینے سے لگا رکھا ہے
گھر سے باہر نہیں جاؤ کہ بہت خطرہ ہے
جیسے کورونا نے کوئی جال بچھا رکھا ہے
اب نہ وہ دوستوں کی بزم ہے، نہ کرکٹ ہے
'چیل اڑی، چڑیا اڑی' نے دل بہلا رکھا ہے
وہ جو کہ رات گئے گھر کی خبر لیتے تھے
ان دلیروں نے بھی باہر کو بھلا رکھا ہے
جن کے درشن سے عشاق جیا کرتے تھے
ان حسینوں نے بھی چہروں کو چھپا رکھا ہے
کل کسی کو بھی خبر کب تھی کسی اپنے کی؟
آج بس فون نے ان سب سے ملا رکھا ہے
سبزیاں کاٹ لوں؟ یا گھر کا کوئی کام کروں؟
لیکن گھر والوں نے کاہل ہی بنا رکھا ہے
گفتگو کس سے ہو؟ کون سنے گا سرور؟
تونے ہر شخص کو ہر لحظہ خفا رکھا ہے