یہ قوم اب نیا جنم لے رہی ہے
رات کی سیاہی میں سحر گھل رہی ہے
سب خواب پتھرا گئے تھے آنکھوں میں
اب تعبیروں کو بینائی مل رہی ہے
سوچوں پر بھاری زنجیر پڑی تھی
اب زنجیر کی کوئی کڑی کھل رہی ہے
نشان_ منزل کو ترس گئے تھے ہم
اب منزل خود ہماری جانب چل پڑی ہے
غربت میں سہمے ہوئے لوگو! ذرا دیکھو
اب بہار آنے کو ہے ہوا چل پڑی ہے
طوق_ غلامی کو آج اتار پھینکنا ہے
اب سنبھلنا تمہیں آزادی مل رہی ہے