تُم سامنے جو آئے تو جُرأت رہی نہیں
کہنی تھی کوئی بات جو تُم سے کہی نہیں
گر عشق ہے تو آج ہی بندھن میں باندھ لو
"گویا ابھی نہیں ہے کا ہے مطلب کبھی نہیں "
چاہا ہے تُم کو ٹوٹ کے میں نے صنم مرے
کرتے ہیں اِتنی چاہ سے چاہت سبھی نہیں
جی لوں گا چین سے میں تُمہارے بغیر بھی
مُجھ کو تمہاری اِتنی بھی عادت لگی نہیں
یہ کیسی کیفیت ہے عجب اِضطراب ہے
پہلے پہل ہوئی تھی جو چاہت اِبھی نہیں
پروردگار شُکر ترا ماں ہے میرے پاس
دولت کی میرے واسطے بالکل کمی نہیں
بھولا نہیں ہوں آج بھی وہ رات یاد ہے
سردی کی رات ہے تو مگر شبنمی نہیں
لوگو کے چاہنے سے کہاں شوبی کچھ ہُوا
دِل پہ ہمارے برف تو اب تک جمی نہیں