ابتلائے عشق مِیں ہوں
مبتلائے عشق مَیں ہوں
اضطراب و بیقراری
میری روح میں بسی ہے
زودِ رنج ہوں میں رنقا
میرے ہونٹوں کی ہنسی ہے
کوئی کیا سمجھائے ہم کو
جب خرد ہی ساتھ نہ دے
جس کا ساتھ چاہتے ہوں
تقدیر اس کا ہاتھ نہ دے
ایسے میں سمجھانا مشکل
ہے دلِ بےتاب کا
توڑ ڈالے آئینہ
کوئی کیسے اپنے خواب کا
جانتا ہے بس وہی
عشق کی افتاد کیا ہے
جانتا ہے بس وہ ہی
جِس کے دل پہ آن وارد ہوں
بلائیں عشق کی
اے خرد مندو! یہاں سے جاؤ
اپنی راہ لو
اِس دلِ بیمار کو
اَب نہ کوئی صلاح دو
اپنے حال میں مگَن
رہتے ہیں اہلِ عشق بس
پوچھنے والوں کو
یہ کہتے ہیں اہلِ عشق بس
ابتلائے عشق مِیں ہوں
مبتلائے عشق مَیں ہوں