ابھی نئے ہو تو شاید وفا دغا نہ لگے
خدا کرے کہ تجھے شہر کی ہوا نہ لگے
بس ایک بار لگی تھی تری گلی کی ہوا
اور اب یہ حال کہ کوئی دعا، دوا نہ لگے
پھنسا ہوں سحر بیانی کے جال میں تیری
میں صید وہ ہوں کہ صیاد بھی برا نہ لگے
میں چاہتا ہوں عدالت میں فیصلہ وہ کرے
وہ عمر قید سنا دے مجھے سزا نہ لگے
مطالعہ سبھی مضمون کر چکا ہوں مگر
مجھے تو یہ بھی ترے ذکر سے جدا نہ لگے
خموش لب سے اسے چاہتا رہوں کہ علیٓ
یہ رسمِ عشق چلے اور اسے پتہ نہ لگے