اندھیروں سے اجالوں کا سفر کرنا ہے
غمیں زندگی کو خوشیوں سے بھرنا ہے
کیا قسمت اور کیا تقدیر کا لکھا
مجھے تو دعاوں سے گلشں کرنا ہے
اب نہیں مرجھانا گلاب کی کی طرح لکی
اب تو بس خدا سے ہی ڈرنا ہے
کانٹے ہیں چاروں طرف تو کیا ہوا
تجھے راضی بھی تو خدا کرنا ہے
کس راستے پر چلوں جہاں منزل ہو
مجھے تو اک دن آخر مرنا ہے
کیوں بھول جاؤں فقط خاک ہوں میں
مٹی کو تو مٹی میں ملنا ہے