ایک تم ہی تو نہیں ہم کیا کریں
اور بھی دنیا میں ہیں غم کیا کریں
روح کے گھاؤ نظر آتے نہیں
ایسے زخموں پر کہاں مرہم کریں
کچھ چھلک جاتے ہیں بس اک بوند سے
دخترِ رز ساغر و خم کیا کریں
خوش سلیقہ ہے وہ باکردار ہے
نقش ہیں تھوڑے سے مدھم کیا کریں
گھر کے جھگڑوں میں بنے فٹبال ہیں
ہر کوئی ہم سے ہے برہم کیا کریں
اب غنا بس روح کا آزار ہے
بےسروں کی ایسی سرگم کیاکریں
مانگتا شیطاں بھی ہےان سے پناہ
پیر گنڈے منتر و دم کیا کریں
قوم کی غیرت ہی جب مفلوج ہو
یہ ترانے گیت پرچم کیا کریں