بات کرتے ہی یہ کہہ اُٹھتے ہو منشا کیا ہے؟
بات کرنے کا تمہارے یہ طریقہ کیا ہے؟
ضد پر آجاؤں تو جی بھر کے ستا کر چھوڑوں
تو نے اے چھیڑنے والے مجھے سمجھا کیا ہے؟
اس نے عرضِ تمنا کی اجازت دے دی
میں ہوں اس سوچ میں یارب کہ تمنا کیا ہے؟
درد تو بخش دیا خیر کوئی بات نہیں
اب ذرا یہ تو کہو اس کا مداوا کیا ہے؟
تم سے کرتا ہے شکایت جو کوئی کرنے دو
اس میں سچ پوچھو تو نقصان تمہارا کیا ہے؟
ایک اظہارِ محبت پہ یہ غصہ؟ توبہ!
جانے بھی دیجئے ان باتوں میں رکھا کیا ہے
میں کبھی یہ نہ کہونگا کہ کرم کیجئے آپ
آپ خود سوچئے الفت کا تقاضا کیا ہے؟
رنج اٹھاتے ہیں ستم سہتے ہیں چُپ رہتے ہیں
جانتے ہیں کہ شکایات سے ہوتا کیا ہے؟
رنج دن رات کا دیکھا نہیں جاتا
نہیں معلوم کہ اس عشق میں ہونا کیا ہے