داد کو اپنی زرا سنبھال کے رکھیے
ابھی تو درد کو شعر کہنا باقی ہے
کیا ہوا آغاز میں جزبات مچل گئے
ابھی تو دن کا سنایا رات باقی ہے
اسکی قیامت آنکھوں کا خدا جانے
ہوش بھی نہیں اور شراب باقی ہے
دل تھام لو اے محفل والو اپنے اپنے
اسکا ہاتھ تھام،کہنا اے جان باقی ہے
حازق عرض،اسکی تالیاں سنائی دیں
اپنے ساتھ جو اسکا لینا نام باقی ہے