ختم ہو ئے ہم ،تجھ کو خود سے مٹا تے مٹاتے
دل نے ہر زخم سہا تجھ کو مناتے مناتے
تم کو یقین کہاں اس بات پہ مگر
تھک جاؤ گے ہمیں یوں آزماتے آزماتے
تیری بے وفائی ، تیری بے اعتنائی, تیری کج ادائی
ہم رو پڑے یہ داستانِ غم سناتے سناتے
یقین تھا اس پہ خود سے بھی بڑھ کے
نگاہیں پھیر گیا لیکن وہ یقین دلاتے دلاتے
پیارے تھے ہم کس قدر اسکو
دل سے اتر گئے لیکن ہم یوں لبھاتے لبھاتے
بے چینی تھی اس قدر وقتِ وصالِ یارکہ
ہم تھک چکے تیری راہوں میں نظر یں بچھاتے بچھاتے
رسم زمانہ ہے یا قسمت کی ستم ظریفی
تم بدل گئے ہم سے نظریں ملاتے ملاتے